چودھری شجاعت حسین ملک کے سینئر سیاست دان ہیں، وضع داری میں بہت مشہور ہیں اور سیاست میں کامیاب بھی بہت ہیں۔ راز یہ ہے کہ بہت کم بولتے ہیں اور بہت زیادہ سوچتے ہیں‘ دوستی نبھانا انہوں نے اپنے والد چودھری ظہور الٰہی شہید سے سیکھا ہے‘ چودھری ظہور الٰہی ان خوش نصیب پارلیمنٹیرین میں شامل ہیں جنہیں اللہ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی پارلیمنٹ میں نمایاں کردار ادا کرنے کا موقع دیا تھا۔ مولانا مفتی محمود‘ شاہ احمد نورانی‘ پروفیسر غفور احمد جیسے رہنماء پارلیمنٹ میں اس کام میں ان کے رفیق رہے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی سیاست میں بے مثال جوڑی ہیں ان جیسا اتفاق شہباز شریف اور نواز شریف کو بھی نصیب نہیں ہوسکا‘ مجال ہے جو بات چودھری شجاعت حسین نے کہہ دی اس کے برعکس کوئی دوسری بات چودھری پرویز الٰہی نے کی ہو۔ شہباز شریف کے بارے میں تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ خود ہر وقت اپنی جگہ بنانے میں مصروف رہتے ہیں لیکن چونکہ ووٹ بینک نواز شریف کا ہے لہٰذا انہیں نواز شریف کے پیچھے چلنا پڑتا ہے۔
چودھری ظہور الٰہی کی شہادت کے بعد ان کے صاحب زادے چودھری شجاعت حسین میدان میں اترے اور چودھری پرویز الٰہی ان کے دست و بازو بنے‘ چودھری پرویز الٰہی گجرات کی بلدیہ کے پہلے کونسلر بنے پھر چیئرمین منتخب ہوئے‘ پنجاب کی صوبائی کابینہ میں بھی رہے‘ وزیر اعلیٰ بھی بنے‘ یوں انہوں نے سیاست کے بہت سارے نشیب و فراز دیکھے ہیں‘ سخت اور آسان دن بھی دیکھ رکھے ہیں‘ تنہاء اور سیاسی اتحادوں میں رہ کر بھی تجربات سے گزر چکے ہیں‘ لہٰذا ان کے سیاسی تجربے کو چیلنج کرنا بہت مشکل ہے۔ ان دنوں مسلم لیگ(ق) تحریک انصاف کی اتحادی ہے‘ لیکن ان کا ذاتی اثر و رسوخ اس قدر زیادہ ہے کہ اسپیکر شپ کے لیے حالیہ انتخاب میں انہیں تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ بزدار کے مقابلے میں بارہ ووٹ زائد ملے‘ حکومت ڈیڑھ سال کا عرصہ گزار چکی ہے‘ اور تحریک انصاف کے ساتھ مسلم لیگ(ق) کا اتحاد گرم پانی میں معلوم ہوتا ہے تحریک انصاف کو ان کے تجربے کی ضرورت ہے تاہم صوبائی حکومت یا تحریک انصاف کی ایک مضبوط لابی نہیں چاہتی کہ ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے اسی لیے اتحاد اب نشیب و فراز کا شکار ہے۔
چودھری خاندان نے حکومت کو مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سمیت بہت سے مشکل وقت سے باہر نکلنے میں مدد دی ہے لیکن احسان مندی کے بجائے احسان فراموشی کا رویہ انہیں اب تکلیف دے رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی بہت سے اتحاد دیکھ چکے ہیں، مشاہدات اور تجربات سے گزر چکے ہیں۔ سیاست کی ہر نشیب و فراز سے واقف ہیں تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے مشکل اتحاد جماعت اسلامی کے ساتھ ہوتا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے بہتر ہے کہ چودھری صاحب خود ہی اس کی وضاحت بھی فرمادیں۔ جماعت اسلامی ایک اتحادی جماعت کے طور پر مسلم لیگ کے ساتھ پہلے پاکستان قومی اتحاد میں رہی اس کے بعد مسلم لیگ کے ساتھ اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل رہی‘ یاد نہیں پڑتا کہ کہیں جماعت اسلامی اور چودھری خاندان کے مابین کوئی کسی مسئلے پر رسہ کشی ہوئی ہو۔ جماعت اسلامی نے پاکستان قومی اتحاد میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد میں بھی رہ کر خود بھی نظم و ضبط میں رہی اور اتحاد کو بھی نظم و ضبط میں رکھنے کی کوشش کرتی رہی کبھی کسی کے لیے مشکل پیدا نہیں کی… ہاں البتہ اتحاد کی وجہ سے خود ضرور مشکل میں رہی‘ شاید اسی سیاسی تجربے کی بنیاد پر ہی اب فیصلہ کر چکی ہے کہ آئندہ کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی…
مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف کے مابین حالیہ غلط فہمی ایسی نہیں کہ دور ہی نہ ہوسکے‘ مسلم لیگ(ق) چاہتی ہے کہ تحریک انصاف ان نکات کا حترام اور پاس داری کرے جن کی بنیاد پر دونوں جماعتوں کا اتحاد ہوا تھا‘ مسلم لیگ(ق) کا یہ چھوٹا سا مطالبہ ہے اس کے لیے تحریک انصاف کی کبھی کمیٹی بن رہی ہے اور کبھی کمیٹی بدل رہی ہے‘ ایک ہی کام کے لیے بار بار کمیٹی بنانے کا مطلب ہوتا ہے کہ ہر بار بات نئے سرے سے شروع کی جائے، مسلم لیگ(ق) یہ تجربہ دہرانا نہیں چاہتی اس لیے وہ اب ڈٹ گئی ہے اور اگر دونوں جماعتوں کے مابین معاملات حل نہ ہوئے تو کوئی اینٹی بائیوٹک بھی کام نہیں کرے گی اور وہ قت جلد آسکتا ہے کہ جب مسلم لیگ(ق) مرحلہ وار حکومت سے الگ ہونا شروع کردے، بچت اسی میں ہے کہ جو دونوں جماعتوں میں اتحاد قائم ہوا تھا تو اس وقت جو کچھ بھی طے ہوا تھا اس پر عمل ہونا چاہیے… چودھری شجاعت حسین معاملات کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ وہ بہت وضع دار ہیں‘ لیکن ان کی بھی ایک حد ہے تحریک انصاف کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ان کی سیاست ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ والا معاملہ نہیں ہے ابھی حال ہی میں پنجاب اسمبلی کے ایک اجلاس میں پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ اگر باجوہ صاحب نہ کرتے تو یہ کام قیامت تک نہیں ہو سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ باجوہ صاحب نے جب پہلی جھپی ڈالی تھی تب یہ کام ہو گیا تھا‘ یوں سمجھ لیں کہ چودھری پرویز الٰہی کی یہ بات ابھی آغاز ہے وہ پنجاب میں اہم اور اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے سیاست دان ہیں۔