مسئلہ کشمیر،پوری قوم متحد ہے

311

پانچ فروری کو پاکستانیوں نے دنیا بھرمیں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے یوم یکجہتی منایا پاکستان میں جہاں ہر معاملے پر اختلاف ہو جاتا ہے وہاں کشمیر ایسا معاملہ ہے جس پر پوری قوم ایک ہو جاتی ہے ۔ جس چیز کو کئی برس سے اتفاق رائے کے بجائے ایک پیچ کہا جار ہا ہے پوری قوم اس کے مطابق ایک پیچ پر نظر آئی کراچی تاخیبر، بلوچستان سے کشمیر سب ایک تھے کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے کراچی میں 20 کلو میٹر طویل زنجیر بنائی گئی ، میٹرو پول تا قائد آباد شاہراہ فیصل پر کراچی کے لوگ سڑکوں پرکھڑے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے تھے اور آدھے گھنٹے نہیںساڑھے تین گھنٹے تک کھڑے رہے ۔ دنیا بھر میںکشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے اجتماعات ہوئے ،سب کا مقصد ایک تھا ۔ لیکن اس ایک پیچ پر بھی الگ الگ حاشیے نظر آ رہے تھے ۔ کیا وجہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر حکومت کا الگ حاشیہ تھا ، فوج کا الگ حاشیہ اورمختلف سیاسی جماعتوں کا الگ… یہ بھی درست کہ سب کو اپنی اپنی شناخت بر قرار رکھنی تھی… لیکن اتنی وسعت قلبی کا مظاہرہ تو کیا جانا چاہیے تھا کہ جس شخصیت نے سب سے پہلے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا اور وفاقی حکومت نے اس کی حمایت کی تھی اس کو بھی سرکاری سطح پر یاد کر لیا جاتا… کیا صرف اس لیے کہ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے امیر تھے ۔ سرکار نے ان کا نام تک نہ لیا ۔ ایک پیچ پر ہونے کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت فوج اور سرکاری پارٹی کم از کم قاضی حسین احمد کویاد کرتی… بہر حال جماعت اسلامی اور قاضی حسین احمد نے یہ کام یاد کرنے کے لیے نہیں بلکہ قوم کو یاد دلانے کے لیے کیا تھا کہ کشمیر تکمیلِ پاکستان کا نا مکمل ایجنڈا ہے ۔ اور قوم گزشتہ تیس برس سے اس عزم کو تازہ کر رہی ہے ۔مشکل یہ ہے کہ گزشتہ 70 برس میں ایسی کوئی حکومت نہیں آئی جو اس مسئلے کو نہایت سنجیدگی سے اقوام متحدہ لے کر جاتی اور عوامی اور سفارتی دبائو کے ذریعے بھارت کو استصواب رائے پر مجبور کرتی بلکہ ہمارے حکمران عالمی سیاست کے سامنے مٹی کا مادھو ثابت ہوئے اور کسی دبائو کو برداشت کرنے کے قابل نہ رہے ۔ موجودہ ٹائیگر وزیر اعظم مستقل ایسی باتیں کر رہے ہیں جن سے کشمیریوں کی ہمت افزائی کے بجائے زخموں پر نمک پاشی ہو رہی ہے ۔ ان کا تازہ بیان ہے کہ مودی کا5 اگست کا اقدام کشمیر کو آزاد کرائے گا ۔ مودی پھنس گیا ہے اسے پیچھے ہٹنے کا راستہ نہیں مل رہا ۔ کوئی نارمل انسان ایٹمی ملک کو11 دن میں فتح کرنے کا بیان نہیں دے سکتا ۔ ہر بد معاش پھنسنے کے بعد حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے ۔ آخر میں فرمایا کہ وعدہ کرتا ہوں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے پر سطح پر فورم پر کوشش کروں گا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر مودی 5 اگست والی غلطی نہ کرتا تو کیا کشمیر آزادنہ ہوتا ۔ کیا ہمارے حکمران بھارتی حکمرانوں کی غلطیوں کے انتظار میں مزید70 برس گزارنا چاہتے ہیں ۔ خان صاحب سے سوال ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے حکومت نے کیا کیا ۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ بد معاش جب بھی پھنستا ہے حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے ۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ یہاں تو حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی کہا جائے تو غداری کا فتویٰ لگ جاتا ہے اور حب الوطنی حکومت کے حصے میں آتی ہے ۔ چنانچہ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ کنٹرول لائن عبور کرنے والا پاکستان اور کشمیریوں کا غدار ہوگا ۔ حیرت ہے70 برس سے کشمیریون کے خون سے بے وفائی کرنے والے حکمران محب وطن اور اپنا خون کشمیریوں کے ساتھ ملا کر زمین پر گرانے والے مجاہد غدار قرار پاتے ہیں ۔کشمیری پاکستان کی جانب سے رٹا ہوا سبق سننے کے تو عادی ہو چکے تھے جس میں ہر حکمران کہتا آ رہا ہے کہ کشمیریوں کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے ۔ ہر فورم پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑیںگے ۔اب کشمیریوں کو اپنے لیے لہو بہا نے والے کو غدار قرار دینے کی باتیں بھی سننا پڑیں گی ۔کشمیر کی آزادی کے لیے امریکا کی ثالثی یا صبر کامظاہرہ نہیں جہاد کرنا ہوگا ۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے تو آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کا یہ مطالبہ بھی برداشت نہیں ہوا کہ اپنا دامن وسیع کریں اور قومی اتفاق رائے پیدا کریں ٹی وی شو میں لڑائی جھگڑے بند کرائیں ، وزیر اعظم اس پر چراغ پا ہو گئے اور اسے بد عنوان لوگوں سے مفاہمت کی جانب لے گئے ۔ ان کے سر پر دو ہی خاندان سوارہیں کشمیر اور قومی اتفاق رائے کے مطالبے پر بھی انہیں وہی یاد آتے ہیں اتنا کہہ دیتے کہ جی بالکل ہم بھی یہی چاہتے ہیں ۔ تو کیا ہو جاتا…