دورہ پترا جایا نتیجہ خیز ہوگا؟

288

فیصلہ وہی اچھا ہوتا ہے جو درست اور بروقت کیا جائے۔ وقت گزرجانے کے بعد صرف اس کا ازالہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ باتوں سے نہ پیٹ بھرا جاسکتا ہے اور نہ ہی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ سانپ گزر جائے تو لکیر پیٹنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
جس وقت مہاتیر محمد نے مسلم امہ کی بہتری اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے پیش نظر ایک کثیرالجہت مقصد کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا تھا تو وزیر اعظم پاکستان کو ملائیشیا کا دورہ لازماً کرنا چاہیے تھا لیکن وہ وقت نہ صرف نکل گیا بلکہ جو ممالک اس اہم موقعے پر وہاں موجود تھے وہ تمام ممالک پاکستان کی جانب سے اس اعتماد سے محروم ہو گئے جو انہیں ایسے اہم موقعے پر درکار تھا۔ پاکستان کے لیے اب یہ بات کوئی آسان نہیں ہوگی کہ ان ممالک پر اپنا اعتماد دوبارہ بحال کر سکے لیکن پھر بھی ایسا کیا جانا کوئی نہ ممکن بھی نہیں۔ غالباً وزیر اعظم کا حالیہ دورہ ملائیشیا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو۔ مہاتیر محمد کی جانب سے بلائی جانے والی اس اہم کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا احساس وزیر اعظم پاکستان کو ضرور ہوا ہوگا جس کا اظہار حالیہ دورے میں کیا گیا۔ دورہ نہ کرنے کی جو بھی وجوہ تھیں وہ دنیا سے پوشیدہ تو نہیں تھیں لیکن جن شکوک و شبہات کا بر ملا اظہار اجلاس میں شریک ممالک نے اور خاص طور سے ترکی کے صدر اردوان نے کیا تھا اس کی تردید سعودی ترجمانوں کی جانب سے سامنے آئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ہم نے پاکستان پر ایسا کوئی دباؤ نہیں ڈالا تھا کہ وہ اجلاس میں شریک نہ ہو۔ قوم کو یاد ہوگا کہ سعودی حکام کی جانب سے واضح تردید آ جانے کے باوجود پاکستان کی جانب سے مکمل خاموشی رہی اور پاکستان نے سعودی تر دید کی نہ تو حمایت میں کچھ کہا اور نہ ہی مخالفت میں جو اس بات کا اظہار تھا کہ کچھ نہ کچھ معاملات سعودی تردید کے بر عکس ہیں۔ پہلی مرتبہ وزیر اعظم نے نہ صرف خاموشی توڑی بلکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں اجلاس میں شریک نہ ہونے پر بہت افسردہ تھا دراصل پاکستان کے قریبی دوست ملک سمجھتے تھے کہ یہ کانفرنس مسلم امہ میں تقسیم کا باعث بنے گی۔
جہاں تک مسلم امہ کی تقسیم کی بات ہے تو خود عمران خان اس بات کا بھر پور ادراک رکھتے ہیں۔ پترا جایا (ملائیشیا) میں انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلم ممالک اتنے تقسیم ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) کا سربراہی اجلاس تک نہیں بلاسکتے‘‘۔ وزیر اعظم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ ’’دنیا میں صرف ایک کروڑ سے کچھ زائد یہودی ہیں لیکن ان کے اثر و رسوخ اور طاقت کی وجہ سے کوئی ان کیخلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا جب کہ مسلمان ایک ارب 30 کروڑ ہونے کے باوجود جبر اور بدترین بحرانوں سے دوچار ہیں اور ہماری کوئی آواز نہیں کیونکہ ہم تقسیم ہیں۔ مسلمانوں کو عالمی سطح پر متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانا ہوگی‘‘۔ یہ ساری باتیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان کو مسلمان ممالک کی کمزوریوں کا احساس ہے اور وہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ دنیا کے سارے مسلمان ممالک متحد ہو جائیں۔
وزیراعظم پاکستان کی تقریر اور بہت سارے تقاریر کی طرح بہت اعلیٰ تھی لیکن کیا اس تقریر سے دسمبر میں ہونی والی کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا ازالہ ہو جائے گا؟۔ جب اس بات کا ادراک وزیر اعظم کو بہت اچھی طرح ہے کہ ایک تو مسلم امہ منقسم ہے اور دوسری جانب اتنی بے بس ہے کہ کشمیر جیسے اشو پر وہ اپنا ایک اجلاس تک طلب نہیں کر سکتی تو کسی ایسے بلاک کے بنائے جانے پر غور کیوں نہیں کیا جاسکتا جس سے یہ امید وابستہ کی جاسکے کہ وہ ڈر اور خوف کی فضا کو توڑ کر مسلمان ممالک میں عزم و ہمت کی نئی روح پھونک سکتی ہے۔ مہاتیر محمد کی سر براہی میں بلائی جانے والی کانفرنس کے اغراض و مقاصد مسلم ممالک کے درمیان افتراق پیدا کرنا تو یقینا نہیں رہا ہوگا۔ اگر یہ بات فرض بھی کرلی جاتی کہ اس اجلاس سے مسلم امہ میں مزید تقسیم کا امکان ہے تب بھی پاکستان کی نمائندگی سے اس میں اصلاح کی ایک گنجائش نکل ہی سکتی تھی۔
ملائیشین وزیر اعظم اور عمران خان کی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی جس میں ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا کہ ’’وزیر اعظم پاکستان سے باہمی تعاون سے متعلق جامع مذاکرات ہوئے ہیں، تمام سطح پر وفود کے تبادلوں اور دوروں پر اتفاق کیا گیا اور دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کا اعادہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم امہ کو درپیش چیلنجز کے لیے دونوں ممالک مل کر کام کریں گے۔ مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ دفاع اور تعلیم کے میدانوں میں بھی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، اس کے علاوہ تجارتی رکاوٹوں کو دور کرکے باہمی تجارت پر اتفاق کیا گیا۔ عمران خان کا دورہ ملائیشیا دوطرفہ تعلقات کا عکاس ہے دونو ں ممالک کے وفود کی سطح پر دورے جاری رہیں گے‘‘۔ اس مشترکہ کانفرنس کی روشنی میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ دورہ نہایت کامیاب رہا۔ عمران خان نے ایک پاکستانی اور ایک مسلمان ملک کے سربراہ کی طرح اپنی ہر بات نہایت واضح طور پر بیان کی۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ جن جن امور پر بات چیت کی گئی کیا یہ سارے کے سارے امور صرف وزیرِ اعظم کی ذمے داریوں میں آتے ہیں؟۔ جب پاکستان میں ہر محکمے کے وزرا اور مشیران موجود ہیں تو سب کی ذمے داریاں اپنے سر باندھ لینا ایک جانب تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذمے داران اہلیت پر پورے نہیں اتر تے تو دوسری جانب یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ’’نگران اعلیٰ‘‘ کو ان پر وہ اعتماد نہیں جو ہونا چاہیے۔ یہ بات کئی لحاظ سے درست نہیں اس لیے کہ عدم اعتماد غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے جس کے آثار حکومتی اتحاد میں نظر آنے لگے ہیں۔
حکومتی سطح پر جو دورے بھی کیے جاتے ہیں وہ کبھی غیر مفید نہیں ہوا کرتے۔ موجودہ دورہ بھی ایک کامیاب دورہ ہے لیکن کیا اس کے اچھے اثرات عوام تک بھی پہنچ سکیں گے، کیا امت کو یک جا کرنے میں یہ دورہ کوئی کردار ادا کر سکے گا، کیا وہ قریبی دوست جنہوں نے وزیر اعظم کو ملائیشیا کی کانفرنس میں شرکت کرنے سے روکا تھا وہ اس دورے کے بعد ناراض تو نہیں ہو جائیں گے یا اس دورے کے بعد امت مزید تقسیم کا شکار تو نہیں ہو جائے گی؟۔ یہ ہیں وہ سوالات جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ابھرتے ہیں۔ ہر پاکستانی کو نہ صرف ان سارے سوالات کے جوابات چاہئیں بلکہ وہ سارے مسائل جن میں اہم ترین بے روزگاری کا خاتمہ اور مہنگائی کے عفریت پر قابو پانا شامل ہے، کا فوری حل چاہیے۔ اگر ایسا کچھ نہ ہو سکا تو لاکھوں دورے بھی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ناکافی ہوںگے۔