کیا حاضر سروس ائر مارشل فاضل تھے ؟

410

پی آئی اے میں چیف ایگزیکٹو آفیسر کے منصب پر پاک فضائیہ کے نائب سربراہ کو جس طرح مقرر کیا گیا ہے ، اس پر آڈیٹر جنرل پاکستان کے کمرشیل ڈویژن نے جو سفارشات کی ہیں وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ۔ اس منصب پر پاک فوج کے حاضر سروس ائر مارشل کی تعیناتی میں ہر قانون کی دھجیاں اڑادی گئیں ۔ صرف یہی نہیں کہ ائر مارشل ارشد ملک کو پی آئی اے میں تعینات کردیا گیا بلکہ وہ اپنے ساتھ پاک فوج اور پاک فضائیہ کے افسرا ن کی ایک فوج بھی اپنے ہمراہ پی آئی اے میں لے کر آئے جس کی وجہ سے قومی فضائی کمپنی کا کمرشیل آپریشن تباہ ہو کر رہ گیا ۔ یہ امر واضح ہے کہ ملٹری ایوی ایشن اور کمرشیل ایوی ایشن یکسر دو مختلف شعبے ہیں ۔ جس طرح کمرشیل ایوی ایشن کا ماہر ملٹری ایوی ایشن کی ابجد نہیں جانتا بالکل اسی طرح ملٹری ایوی ایشن کا ماہر کمرشیل ایوی ایشن کا وہی حال کرتا ہے جو F16 طیارے کا ماہر پائلٹ بوئنگ 777 طیارے کا کرے گا ۔ جس طرح سے سویلین اداروں میں فوج کے حاضر سروس افسران کی تقرریاں بڑے پیمانے پر کی جارہی ہیں ، اس کا ایک تاثر یہ بھی ابھر رہا ہے کہ فوج میں یہ افسران فاضل ہیں ۔ وائس چیف آف ائر اسٹاف کو بنانے میں یقینا پاک فضائیہ کے کروڑوں روپے صرف ہوئے ہوں گے اور وہ یقینا پاک فوج کا اہم اثاثہ ہوں گے ۔ اتنے اہم افسر کو اس کی مدت ملازمت مکمل ہوئے بغیر پاک فضائیہ سے اس طرح رخصت دینا کہ ان کا متبادل بھی مقرر نہیں کیا گیا ، حیرت کی بات معلوم ہوتی ہے ۔ کیا افواج پاکستان کے پاس اب کام ختم ہوگیا ہے اور ان کے سارے ہی افسران فاضل ہوگئے ہیںاور ان کی تنخواہوں کا بجٹ بھی موجود نہیں ہے کہ انہیں سویلین اداروں میں کھپانا پڑ رہا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو مقتدر اتھارٹی کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ سویلین اداروں میں فوجی افسران کی تعیناتی سے صرف سویلین افسران ہی کی حق تلفی نہیں ہورہی اور یہ ادارے ہی تباہ نہیں ہورہے بلکہ اس سے افواج پاکستان بھی اپنے اہم ترین انسانی اثاثوں سے محروم کی جارہی ہیں جن کا اپنی فیلڈ میں کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ یہ زیادہ بڑا نقصان ہے ۔