ناموس کے معنی

1350

ایک صاحب نے دریافت کیا ہے: ’’ناموسِ رسالت‘‘ کا کلمہ ہم اکثر استعمال کرتے ہیں، ناموس کے معنی کیا ہیں‘‘۔
جواباً عرض ہے: ناموس کا لفظ مؤنث ہے، یہ لفظ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں موجود ہے، ماہرِ لُغت علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں: ’’عربی میں اس کے معنیٰ ہیں: شیر کی کمین گاہ، پس یہ شیر کی کچھار کے مشابہ ہے، اس کے معنی ’’علم کا برتن‘‘ بھی ہے، جبریل امین کو بھی ناموس یا ناموسِ اکبر کہتے ہیں، اہلِ کتاب اُنہیں اسی نام سے تعبیر کرتے تھے، حدیثِ بعثت میں ہے: ’’جب رسول اللہ ؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو سیدہ خدیجہؓ آپ ؐ کو لے کر وَرَقہ بن نوفل کے پاس آئیں، وہ رشتے میں آپ کے چچا زاد تھے اور مذہباً نصرانی تھے، اُنہوں نے تورات وانجیل پڑھی ہوئی تھیں، پس اُنہوں نے کہا: ’’آپ جو بیان کررہی ہیں، اگر یہ سچ ہے، تو ان کے پاس وہ ناموس ضرور آئے گا جو موسیٰؑ کے پاس آیا‘‘۔ ایک روایت میں ہے: ’’ناموسِ اکبر آئے گا‘‘، ابو عبید نے کہا: ’’ناموس بادشاہ کے راز داں یا اُس قریبی شخص کو کہتے ہیں جو اس کے اُن رازوں سے آشنا ہو جنہیں وہ دوسروں سے چھپاتا ہے، لیکن اُسے آگاہ رکھتا ہے، اسی لیے کسی شخص کے رازداں کو بھی ناموس کہتے ہیں‘‘۔
ایک قول کے مطابق ’’اُمورِ خیر کے رازداں‘‘ کو ناموس اور اُمورِ شَر کے رازداں کو جاسوس کہتے ہیں، ظاہر ہے ناموس سے وَرَقہ کی مراد جبریلؑ تھے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں وحی اور غیب کے اُن امور پر مطلع کیا تھا، جن پر دوسرے مُطلع نہیں تھے، (لسان العرب)‘‘۔ علامہ مرتضی زبیدی لکھتے ہیں: ’’راہب کے گھر، علم کے برتن اور راز کو ناموس کہتے ہیں، (تاج العروس)‘‘، امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں:
ترجمہ: ’’عَمرو بن عاص نے حَبشہ کے بادشاہ اَصْحَمَہ بن ابجر نجاشی سے عَمْروبِن اُمَیَّۃ اَلضَّمْرِی کی سپردگی کا مطالبہ کیا تو نجاشی نے کہا: ’’تم مجھ سے اس شخص کے نمائندے کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہو تاکہ تم اسے قتل کرو، یہ تو اُس شخص کا پیغام رساں ہے، جن کے پاس وہ ناموسِ اکبر (جبریلِ امین) آئیں گے جو موسیٰؑ کے پاس آتے تھے‘‘۔ عَمروبن عاص بیان کرتے ہیں: میں نے نجاشی سے کہا: ’’اے بادشاہ! کیا یہ سچ ہے، نجاشی نے کہا: اے عمرو! تجھ پر افسوس ہے، میری بات مان لو اور ان کی اتباع کرو، بخدا یہ حق پر ہیں، یہ اپنے مخالفین پر غلبہ پائیں گے، جیسے موسیؑ کو فرعون اور اس کے لشکر پر غلبہ حاصل ہوا تھا‘‘۔ عَمرو بن عاص بیان کرتے ہیں: میں نے کہا: ان کی طرف سے اسلام پر میری بیعت لیجیے، نجاشی نے کہا: بہتر، پس نجاشی نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں نے اسلام پر ان کی بیعت کی، پھر میں نکل کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا، میری رائے اُن کے بارے میں قائم ہوچکی تھی، لیکن میں نے اپنے اسلام کو اپنے ساتھیوں سے چھپائے رکھا، پھر میں اسلام قبول کرنے کے لیے رسول اللہ ؐ کے پاس گیا، تو میری ملاقات خالد بن ولید سے ہوئی، یہ فتح مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے اور وہ مکہ سے آرہے تھے، میں نے اُن سے کہا: ابو سلیمان! کہاں کا ارادہ ہے، اُنہوں نے کہا: واللہ! راستہ سیدھا ہوگیا ہے، بے شک یہ شخص نبی ہے، بخدا میں جاکر اسلام قبول کروں گا۔ عَمر وبن عاص بیان کرتے ہیں: میں نے کہا: میں بھی اسلام قبول کرنے کے لیے ہی آیا ہوں، وہ بیان کرتے ہیں: پس ہم رسول اللہ ؐ کے پاس حاضر ہوئے، خالد بن ولید نے پہل کی، وہ اسلام لائے اور بیعت کی، پھر میں قریب ہوا، میں نے عرض کی: یارسول اللہ! میں اس شرط پر بیعت کرنا چاہتا ہوں کہ میرے ماضی کے گناہ معاف ہوجائیں، عَمروبن عاص بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: عَمر و بیعت کرو، کیونکہ اسلام ماضی کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت ماضی کے گناہوں کو مٹادیتی ہے، وہ کہتے ہیں : پس میں نے بیعت کی اور چلا گیا، (مُسند ِاحمد)‘‘۔
محمد عبداللہ خان خویشگی ’’ناموس‘‘ کے معنی لکھتے ہیں: ’’عصمت، عفت، ناموری، نیک نامی، تدبیر، سیاست، قاعدہ، دستور، پوشیدہ، حیلہ، فرشتے، احکام الٰہی، جمع: نوامیس، (فرہنگ عامرہ)‘‘۔ محمد بن یعقوب فیروز آبادی لکھتے ’’ناموس‘‘ کے معنی لکھتے ہیں: ’’آبرو، شہرت، عزت، صاحب راز، سیدنا جبریل کا لقب، فرشتہ، احکام الٰہی، ناموس اکبر: سیدنا جبریلؑ کا لقب، شریعت، قاعدہ، دستور بزرگ، (فیروزاللغات)‘‘۔
الغرض اہلِ کتاب کی اصطلاح کے مطابق عربی زبان میں ناموس جبریل ِ امین کے لیے بولا جاتا ہے، اُنہیں ناموسِ اکبر بھی کہتے ہیں، اس کے معنی رازداں کے بھی ہیں اور ظاہر ہے کہ جبریلِ امین وحیِ ربانی کے امین تھے جو یقینا اللہ تعالیٰ کا راز ہے، جسے جبریلِ امین کے ذریعے انبیائے کرام تک پہنچایا جاتا رہا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور بے شک یہ قرآن تمام جہانوں کے ربّ کا اتارا ہوا ہے، (اے رسولِ مُکرم!) اسے روح الامین نے آپ کے قلب پر فصیح عربی زبان میں نازل کیا تاکہ آپ ڈر سنانے والوں میں سے ہوجائیں، بے شک اس کا تذکرہ پہلے انبیاء کی کتابوں میں بھی ہے، (اَلشُّعرَاء: 192-96)‘‘۔
ہم ناموسِ رسالت مآب ؐ کی اصطلاح فارسی معنی کے اعتبار سے استعمال کرتے ہیں، اس سے مراد رسول اللہ ؐ کی عصمت، عزت، حُرمت، آبرو اور نیک نامی ہے، اسی طرح تمام مقدّساتِ دین کی حرمت کے لیے ناموس کا کلمہ استعمال ہوتا ہے، جیسے ناموسِ اُلوہیت، ناموسِ قرآنِ کریم اور ناموسِ دینِ مبین وغیرہ۔
بیانیہ: قیامِ پاکستان کے وقت سے ملکی سیاست جیسے تیسے اپنی ڈگر پرچل رہی تھی، لیکن رواں عشرے میں ایک نئی سیاسی اصطلاح عالَمِ غیب سے نازل ہوئی اور الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا کے لوگوں نے اس کی گردان شروع کردی کہ فلاں مسئلے میں پاکستان کا بیانیہ کیا ہے، فلاں سیاسی جماعت کا بیانیہ کیا ہے، ہمارا قومی بیانیہ کیا ہے، فلاں نے اپنے بیانیے کو خیر باد کہہ دیاہے، ن لیگ پر طعن کیا جاتا ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ کدھر گیا، حالانکہ اس کا سیدھا سا جواب میر تقی میر نے دیا ہے:
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
پس اس حمام میں سب یک رنگ ہیں، سو ن لیگ بھی اپنے بیانیے سمیت اُسی بلیک ہول میں گم ہوگئی جس میں ہماری سیاسی کہکشاں کے سارے سیارے فنا ہوگئے، وحدت الوجود کا اس سے بڑا مظہر اور کیا چاہیے، غالب نے بہت پہلے کہا تھا:
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں، سمندر میں اتر جاؤں گا
سید محمد مست کلکتوی نے کہا ہے:
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
الغرض جس کسی کو اپنے اقتدار کا دوام مطلوب تھا، اُس نے بحرِ اقتدار میں فنا ہونے کا راز پالیا، تجربے کے بعد بھی ہوش آجائے تو بسا غنیمت ہے، یہ راز اقتدار خان نے پہلے پالیا تھا، سید صاحب ہی نے کہا ہے:
سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حِنا، پتھر پہ پس جانے کے بعد
پس بیانیہ کے لیے انگریزی لفظ Narrative متعارف کرایا گیا۔ اسی تناظر میں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک بیانیہ جاری ہوا، وفاق اور چاروں صوبوں کے اقتدار کے ایوانوں میں اس کی لانچنگ ہوئی، پھر یونیورسٹیوں میں اس کے تعارفی پروگرام ہوئے اور مارکیٹنگ ہوئی، انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ کیا گیا کہ شاید مغربی دنیا ہم سے مطمئن ہوجائے اور ہمیں اچھا بچہ تسلیم کرلے، لیکن: ’’ای بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے مصداق یہ تمنا پوری نہ ہوسکی اور پھر ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی شرائط کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہے، حال ہی میں ایف اے ٹی ایف نے چین میں منعقدہ ایک جائزہ اجلاس میں اپنے مطالبات کی ایک نئی فہرست جنابِ حماد اظہر کی قیادت میں ہماری مذاکراتی ٹیم کو تھمادی ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ دنیا کوہمارا بیانیہ نہیں، عملیہ مطلوب ہے، ہم بھی دنیا کے باطل اور مقابل نظاموں کے مقابلے میں علمی سطح پر دینِ اسلام کی برتری اور تفوُّق ثابت کرتے رہتے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم خود اس پر پورا نہیں اترتے اور دنیا کتابی اسلام پر نہیں، بلکہ مسلمانوں کے عملی سانچے میں ڈھلے ہوئے اسلام کا مشاہدہ کرکے رائے قائم کرتی ہے اور ردّ وقبول کا فیصلہ کرتی ہے۔
مفتی منیب الرحمن

احساس کفالت کارڈ: موجودہ حکومت نے نادار طبقات بالخصوص خواتین کے لیے ’’احساس کفالت کارڈ‘‘ کا اجرا کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے اس کے لیے دوسو ارب روپے مختص کیے ہیں اور بالترتیب ستّر لاکھ خواتین یا خاندان اس سے مستفید ہوں گے اور آگے چل کر مرغیاں اور بھینسیں بھی روزگار کے لیے دی جائیں گی، یہ اچھی بات ہے، ہم اس کی تحسین کرتے ہیں کہ زیریں طبقات کو سہارا دیا جائے، مغربی دنیا میں یہ شِعار پہلے سے موجود ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
مفتی منیب الرحمن
لیکن معیشت کے میدان میں ملک کی حقیقی اٹھان تب ہوگی جب وسیع پیمانے پر معاشی سرگرمیاں شروع ہوں گی، صنعتیں لگیں گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، مارکیٹ میں رائج قیمتوں کے مطابق لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ ہوگا تو بحیثیتِ مجموعی معاشرہ مرفّہ الحال اور فارغ البال ہوگا۔ پس حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے اور جس حکمتِ عملی سے چین کی حکومت نے اپنے ملک کو ترقی دی ہے، صنعتوں کا جال بچھایا ہے اور ترقی یافتہ، ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کی مارکیٹیں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں، آخر ہم اس سَمت میں سفر کیوں نہیں کرسکتے، اس میں کیا رکاوٹ ہے۔ اسی طرح بنیادی طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اسے نہ صرف اپنی زرعی ضرورتوں میں خودکفیل ہونا چاہیے، بلکہ بڑے پیمانے پر زرعی پیداوار کی برآمد بھی ہونی چاہیے، لیکن ہماری زرِ مبادلہ کمانے والی زرعی پروڈکٹ کاٹن کی پیداوار کم ہورہی ہے اور ہماری ٹیکسٹائل ملوں کو اب روئی درآمد کرنی پڑ رہی ہے، نیز ذائقے کے اعتبار سے ہمارے پھل آم، کینو اور کیلا وغیرہ اعلیٰ معیار کے ہیں، ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان کی بین الاقوامی معیار پر پروسیسنگ کر کے برآمد بڑھائی جائے اور کوالٹی پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے۔