شمالی کوریا میں امریکا کی شکست۔۔۔

371

جاوید اکبر انصاری
مبارک ہو! شمالی کوریا کے حکمران کم جونگ اون نے 2020 کے سال نو پیغام میں اپنے ملک کے نیوکلر پروگرام کی توسیع کا اعلان کردیا اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں شمالی کوریا کسی نئے نیوکلر ہتھیار کا اجرا کرے گا۔ جزیرہ نما کوریا کو امریکا نے 1945 میں تقسیم کردیا۔ شروع ہی سے امریکا شمالی کوریا کی آزادی کو ختم کرنے کے درپے رہا ہے پچھلے اسی (80) سال سے امریکا شمالی کوریا کے خلاف سفارتی اور معاشی جنگ لڑرہا ہے اور شکستوں پر شکستیں کھا رہا ہے اس طویل جنگ کو جاری رکھنے کی وجہ یہ نہیں کہ شمالی کوریا امریکا کے لیے کوئی گمبھیر فوجی خطرہ پیش کرتا ہے۔ جزیرہ نمائے کوریا تین سامراجی نظاموں، امریکا روس اور چین، کی سرحدوں سے ملحق ہے۔ فی الحال امریکی سامراج کی مشرقی بعیدکی چوکیاں جنوبی کوریا، جاپان اور تائیوان ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا غیر محفوظ ہیں کیونکہ ان کے عوام (اور خواص کے ایک طبقہ میں) امریکا سے آزادی حاصل کرنے کی شدید آرزو ہے اور 1945 تک جاپان خود ایک سامراجی نظام قائم کیے ہوا تھا۔ دورحاضر میں امریکی سامراج سے موثر عسکری نبردآزمائی کے دواہم ذرائع عوامی ہتھیار بندی اور نیوکلر ہتھیار روں کا حصول ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس یہ دونوں ہتھیار موجود ہیں اور اصل خطرہ یہ ہے کہ اگر امریکا شمالی کوریا کو ایک نیوکلر قوت کے طور پر قبول کرے تو اس کا مشرق بعید کا سامراجی نظام متزلزل ہوجائے گا نہ صرف جنوبی کوریا اور جاپان بلکہ فلپائین (Philpin) انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی نیوکلیر ہتھیاروں کے حصول کے لیے جدوجہد کریں گے بلکہ اس کو امریکی سامراج سے گلو خلاصی اور اپنی قومی خود مختاری کے فروغ کا ذریعہ بنائیں گے۔ لہٰذا امریکا شمالی کوریا کے خلاف اپنی ہاری ہوئی جنگ جاری رکھنے پر مجبور ہے۔ امریکا کو امید ہے کہ اس کی انتہائی دبا (maximum pressure) کی حکمت عملی شمالی کوریا (maximum pressure) کی حکمت عملی شمالی کوریا کو اپنی نیوکلر صلاحیت خود تباہ کرنے پر آمادہ کردے گی۔ لیکن انتہائی دبائو کی یہ حکمت عملی 1949 سے آج تک ناکام ہوئی ہے اور مستقل ناکام ہوتی چلی آرہی ہے۔ چین میںکیوبا میں وینزویلا وغیرہ میں اور شمالی کوریا میں اس کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔
شمالی کوریا کو امریکا معاشی دہشت گردی کی بھاری قیمت دینا پڑی ہے اور بحیثیت ایک سرمایہ دارانہ ملک شمالی کوریا کے خواص وعوام معاشی ترقی کے حصول کے شدید خواہاں ہیں لیکن دیگر اشتراکی سرمایہ دارانہ ملکوں کی طرح شمالی کوریا بھی قومی خود مختاری کو معاشی فوائد کے عوض قربان کرنے پر تیار نہیں لہٰذا کم جونگ اون کی حکومت کو اپنے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکی انتہائی دبا اور معاشی دہشت گردی (sanctions) کمزور پڑتی جارہی ہے اور شمالی کوریا کی حوصلہ مندی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کے سامراجی حلیف روس اور چین اس کی استقامت دیکھ کر اس کی پشت پناہی پر آمادہ ہورہے ہیں۔ روس اور چین اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے امریکا سے نبردآزمائی کبھی قبول نہیں کرتے۔ اس لیے انہوں نے اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کو ریاست کے خلاف امریکی معاشی دہشت گردی اقوام متحدہ (sanction) کو veto نہیں کیا لیکن ان (sanction) کو غیر موثر بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
اپریل 2018 میں کم جونگ اون کی حکومت نے نیوکلیئر تجربات پر یکطرفہ تحدید کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے (subcritical) تجربات کے وقوع اور re-entry ٹیکنالوجی کے حصول کا دعویٰ کیا اور فرمایا کہ شمالی کوریا کی نیوکلیئر استطاعت مکمل دفاع کی سطح کو عبورکرتی ہے۔ اس وقت سے لیکر پہلی جنوری 2020 تک شمالی کوریا اپنے نیوکلیئر پروگرام کو منجمد کرنے اور جزیرہ نمائے کوریا کو مکمل طور پر نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک کرنے کی تجویز پیش کرتا رہا۔ اس کا مطلب جنوبی کوریا میں امریکا کے THAD (Terminal high Altitude Defense) پروگرام کے حصول اور جنوبی کوریا سے امریکی نیوکلیئر ہتھیاروں (جو 2020 میں تقریباً 900 کے قریب ہیں) کا اخراج ہے۔ اس پورے دورانیے میں امریکا کا اصرار رہا ہے کہ شمالی کوریا یکطرفہ طور پر اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کو مکمل طور پر تباہ کرکے کورین جزیرہ نما میں امریکی باجگزاری کو قبول کرے۔ 2018 کے بعد سے شمالی کوریا کے خلاف امریکی دہشت گرد کا رو ائیوں میں (Vietnam) اور (Pannmutijon) کے (summits) کے باوجود مستقل اضافہ ہوتا رہا۔ شمالی کوریا کے پاس فی الحال 60 کے قریب نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں جنوری 2020 کا اعلان ثابت کرتا ہے کہ پچھلے چند سال میں شمالی کوریا کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے اور وہ اپنے نیوکلر پروگرام پر خود ساختہ تحدید کو ختم کرنے پر آمادہ ہے۔
اسباق: یہ ہمارے لیے ایک خوش آئند خبر ہے اس کی دو وجوہات ہیں: سرمایہ دارانہ لبرل اور سرمایہ دارانہ اشتراکی قوتوں میں جتنا فروغ پائے گا یہ دونوں قوتیں اتنی ہی کمزور ہوںگی اور غیر سرمایہ دارانہ قوتوں (یعنی اسلامی قوتوں) کے استحکام اور فروغ کے مواقع بہتر ہوتے جائیں گے۔ اسلامی ریاستوں (ایران، افغانستان اور مفتوحات) کی خود مختاری اور اقدامی دائرہ کار میں اضافہ ہوگا لیکن سامراج کی اس چپقلش اور تضاد سے فائدہ اٹھانے کے لیے مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی اتحاد ناگزیر ہے اس علاقے میں سامراج کی باجگزار حکومتیں کمزور پڑتی جائیں گی۔
نیوکلیئر اسلحہ کمزوروں کا ہتھیار ہے اگر شمالی کوریا کا نیوکلیئر تحفظ مستحکم ہوگیا تو مشرق بعید پر سامراج کی گرفت کمزور پڑتی چلی جائیگی اور مشرق بعید اور دیگر علاقوں میں کئی مسلم ممالک انڈونیشیا، ملائیشیا، ایران، ترکی، سعودی عرب اور الجزائر اور نائجیریا بھی نیوکلیئر ہتھیاروں کے حصول کو ناگزیر قیاس کرنے لگیں گے ان ممالک میں بھی سامراج کے پسپائی کی راہ ہموار ہوگی اور نتیجتاً اسلامی انقلابی جدوجہد کے مواقع بہتر ہوں گے۔ لیکن اس بات کا بھی احساس بھی ہونا چاہیے کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کا حصول سامراجی گرفت ہے نجات حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں عوامی عسکری ادارتی صف بندی اور عوامی نظریاتی اور جذباتی تحرک بھی ضروری ہے۔ عوامی نظریاتی اور عسکری صف بندی کے بغیر سامراج گھس پیٹھیوں کے لیے عوامی اور ریاستی تخریب کاری ایک آسان کام ہے جو چیز ونیزویلا، کیوبا، شمالی کوریا اور ایران کو سامراجی فوج کشی سے محفوظ رکھے ہوئے ہے وہ عوامی نظریاتی اور عسکری ادارتی صف بندی ہے اور ان تجربات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس نوعیت کی عوامی ادارتی صف بندی کو مستحکم کرنے کے لیے جمہوری عمل کی تحدید بھی ضروری ہے۔