عمرانی دور میں خسارہ ہی خسارہ

421

دنیا بھر میں معاشی حالات کا تجزیہ کرنے والے ادارے اکنامک انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔ مہنگائی میں اضافہ اشیائے خور و نوش کی قیمتوںمیں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے جبکہ آئندہ برس بھی مہنگائی کے تھمنے کی کوئی امید نہیں ہے ۔ اکنامک انٹیلی جنس نے اپنی رپورٹ میں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کو بھی قرار دیا ہے ۔ یہ بات اب راز نہیں رہی ہے کہ جب سے عمران خان نیازی نے اقتدار سنبھالا ہے ، اس دن سے اختیار کی جانے والی معاشی پالیسیوں کے سبب ملک مہنگائی کی ایک ایسی دلدل میں پھنس گیا ہے جس سے باہر نکلنے کی فی الحال کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ عمرانی حکومت کے گزشتہ ایک سال میں ہونے والی مالی بربادی کے سبب ملک میں اب تک دس لاکھ سے زاید افراد بے روزگاری کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ آئندہ برس مزید بارہ لاکھ افراد کی بیروزگاری کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت نے گزشتہ برس مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح 3.3 فیصد بتائی تھی ، وہ جھوٹی تھی اور اصل شرح محض 1.8 فیصد تھی جبکہ آئندہ برس یہ شرح مزید گر کر 1.2 فیصد پر پہنچنے کے اندیشے ہیں ۔ملک کی مجموعی قومی پیداوار صنعتی اور زرعی پیداوار پر مشتمل ہوتی ہے ۔ روپے کی خوفناک بے قدری ، بجلی ، پٹرول اور گیس کے نرخوں میں بلاجواز اضافے اور جنرل سیلز ٹیکس نے صنعتی اشیاء کی پیداواری لاگت میں زبردست اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے اب یہ صنعتی یونٹ بند ہورہے ہیں اور لوگ بیروزگار ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال زراعت کے ساتھ ہے ۔ زرعی مشینری ، ادویات ، کھاد اور بیجوں کی قیمتوں میں اضافے نے زراعت کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ رہی سہی کسر ٹڈی دل نے پوری کردی ۔ ٹڈی دل کوئی ایسی آفت نہیں ہے جو اچانک ٹوٹ پڑی ۔ ٹڈیوں کا ایک راستہ ہے جو ٹریک کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ پاکستان کو بھی اس کی خبر تھی کہ ٹڈی دل افریقا سے چل پڑا ہے اور مصر و سعودی عرب و مسقط ہوتا ہوا پاکستان پہنچا چاہتا ہے تو پھر اس کو مارنے کی تدبیر کیوں نہ کی گئی اور بروقت اسپرے کیوں نہ کیے گئے ۔اس مقصد کے لیے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے نام سے ایک پورا ادارہ موجود ہے جبکہ محکمہ موسمیات کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ موسم کی پیشگوئی کے ساتھ ساتھ ٹڈی کی صورتحال سے بھی باخبر رکھے ۔ آخر یہ دونوں محکمے کہاں سورہے تھے اور اگر ان دونوں اداروں نے بروقت خبردار کیا تھا تو حکومت نے کیوں ان کی تنبیہ پر کان نہیں دھرے ۔اب تک زراعت کے شعبے میں جتنا بھاری نقصان ہو چکا ہے ،ا س کے چند فیصد خرچ سے ہی ٹڈی دل کا خاتمہ ممکن تھا ۔ پاکستان میں مہنگائی کا جو بھی طوفان آیا ہے ،وہ آیا نہیں لایا گیا ہے ۔ کچھ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے کارندوں کی مہربانی ہے توکچھ عمران خان کی کیش مشینوں کی ۔ اس امر کی نشاندہی جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے بھی کی ہے ۔ انہوں نے جمعہ کو تیمر گرہ میں اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ ملک میں مافیاز کی حکومت ہے ۔ شوگر ، ڈرگ اور لینڈ مافیا پہلے انتخابات میں سرمایہ کاری کرکے اپنے لوگوں کو اقتدار میں لایا اور اب یہ ساری مافیاز لوگوں کا خون نچوڑ رہی ہیں ۔ سراج الحق نے کہا کہ آٹا اور چینی کا بحران پید اکرنے والے وزیر اعظم کے دائیں بائیں موجود ہیں ۔ جو کچھ بھی ملک میں ہورہاہے اس کی براہ راست ذمہ داری عمران خان پر براہ راست عاید ہوتی ہے ۔ وہ ملک کے سربراہ ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکالیں نہ کہ اسے بحرانوں میں مبتلا کردیں ۔ عمران خان کے پاس ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ سب گزشتہ حکومتوں کا کیا دھرا ہے ۔ جب انہیں معلوم تھا کہ گزشتہ حکومتوں نے ملک تباہ کردیاہے تو وہ اتنی محنت اور منت سماجت کرکے کیوں اقتدار میں آئے ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بلاجواز بے قدری ان ہی کے دور میں ہوئی جس نے معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ۔کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ پٹرول ، بجلی اور گیس کے نرخوںمیں آئے دن اضافے کی وجہ سے صنعت و زراعت دونوں بری طرح متاثرہوئے اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ ایف بی آرکی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا ۔ ایک عام کاروباری شخص کے خوفزدہ ہونے سے ملک میں معاشی سرگرمیاں منجمد تو کیا منفی درجے میں چلی گئیں اور یوں سب کچھ تہس نہس ہو کر رہ گیا ۔ اعداد و شمار میں تو عمران خان جیت گئے کہ اتنے لاکھ فائلرز کا اضافہ ہوگیا مگر عملی طور پر ریوینیو زیادہ ہونے کے بجائے کم ہوگیا ۔ اندازہ ہے کہ ہدف کے مقابلے میں محصولات میں کمی900 ارب روپے سے زاید ہوگی ۔ صورتحال اتنی زیادہ خراب ہے کہ عمران خان کے چہیتے ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی بددل ہو کر اپناآفس ہی چھوڑ کر گھر جا بیٹھے ہیں ۔ انہوںنے نہ استعفیٰ دیا ہے اور نہ ہی دفتر آرہے ہیں ۔ اس پوری صورتحال کی روشنی میںعمران خان اپنی حکومت کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی کو دیکھ سکتے ہیں اور یہ بھی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ موجودہ ٹیم کے سہارے آئندہ برسوں میں وہ ملک کی کیا حالت کریں گے ۔عمران خان کے مبینہ اوپنگ بیٹسمین اور موجودہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کہہ رہے ہیں کہ ’’مہنگائی کے مجوزہ اعداد و شمار میں کوئی سیاسی حکومت نہیں چل سکتی۔ معیشت کا پہیہ جام ہے‘‘۔