جامعات کا مالی بحران

311

 وطن عزیز میں ان دنوں ویسے تو ہر شعبہ زندگی میں بھونچال کی سی کیفیت ہے لیکن پچھلے ایک سال سے جب سے موجودہ حکومت نے اپنے تمام تر انتخابی دعوئوں اور نعروں کے برعکس اعلیٰ تعلیم کے سالانہ بجٹ پر نامعلوم بنیادوں پر کٹ لگائی ہے تب سے ہر دوسرے تیسرے ہفتے ملک کی کسی نہ کسی یونیورسٹی کے مالی بحران سے دوچار ہونے کی اطلاعات منظر عام پر آ رہی ہیں اس سلسلے میں پچھلے کئی ماہ سے جہاں ایگری کلچر یونیورسٹی کے مالی بحران کی خبروں کے ساتھ ساتھ ملازمین کو تنخواہوں اور پنشنروں کو پنشن کی عدم ادائیگی کی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں وہاں پچھلے دنوں پشاور یونیورسٹی سے بھی شدید مالی خسارے کی خبروں نے ان اطلاعات پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ ملک کی بڑی اور نامی گرامی جامعات شدید مالی بحران سے دوچار ہیں۔ اس بحران کے بارے میں ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اس سال کے تعلیمی بجٹ میں ہونے والی کٹوتی اب چھ ماہ بعد اپنا اثر دکھانے لگی ہے۔ رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں بیش تر سرکاری جامعات شدید مالی مشکلات کی شکار ہیں۔
اگر پاکستان میں جامعات کے اعداد وشمار پرایک نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ملک بھر میں منظور شدہ جامعات کی تعداد 206 ہے جن میں سے 124 جامعات کا تعلق سرکاری شعبہ سے ہے اور ان کے ذیلی کیمپس کی تعداد 79 ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر جامعات کی تعداد 82 اور ان کے ذیلی کیمپس کی تعداد 33 ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کے لیے درکار غیر ترقیاتی فنڈز کی مد میں 103 ارب روپے چاہیے تھے مگر بجٹ میں صرف 59 ارب روپے مختص کیے گئے اور ترقیاتی فنڈز کی مد میں 55 ارب روپے درکار تھے مگراس مدمیں صرف 28 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں شعبہ تعلیم کے لیے کسی بھی دور حکومت میں مثالی بجٹ مختص نہیں کیا گیا تاہم صورتحال کبھی ایسی نہیں رہی کہ جامعات کو اپنی بقاء کے لالے پڑ ے ہوں اور انہیں اپنے ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی میں مشکلات پیش آئی ہوں۔ دنیا بھر میں بجا طور پر اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو قوم کی فکری اور ذہنی تربیت کا ضامن سمجھا جاتا ہے مگر جب یہ ادارے اپنی بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو جائیں تو ان سے قوم کی تربیت کی امید رکھنا خام خیالی ہوگی۔ جامعات کے سنگین مالی بحران کے باعث یکساں نصاب، معیار تعلیم، علمی اور سائنسی تحقیق اور عالمی درجہ بندی جیسے موضوعات پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ان دنوں پبلک سیکٹر جامعات کی صرف ایک ترجیح ہے وہ یہ کہ کسی نہ کسی طرح اپنے وجود کو قائم رکھا جائے یعنی انہیں روح اور بدن کا رشتہ برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا اور صوبہ سندھ میں سرکاری جامعات کی مالی مشکلات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ تنخواہوں کی ادائیگی تقریباً نا ممکن ہو چکی ہے۔ ملک کی بڑی اور پرانی جامعات میں شمار ہونے والی پشاور یونیورسٹی جو خیبر پختون خوا کا مان اور یہاں علم وتحقیق کا گہوارہ سمجھی جاتی ہے وہ بھی ان دنوں انتہائی ابتر حالات سے دوچار ہے۔ سندھ اور خیبر پختون خوا کی طرح بلوچستان کی یونیورسٹیوں کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے بلکہ فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (FAPUASA) پنجاب کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں بھی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں، بقول ان کے ساہیوال یونیورسٹی، اوکاڑہ یونیورسٹی، جھنگ یونیورسٹی اور ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی کے حالات انتہائی مخدوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسوسی ایشن کی جانب سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو بارہا درخواست دینے کے باوجود معاملات جوں کے توں ہیں۔
یاد رہے کہ سرکاری جامعات میں جار ی مالی بحران ایچ ای سی کی طرف سے جامعات کے بجٹ میں دس فی صد کٹ کی وجہ سے پچھلے کچھ عرصہ سے شدت اختیار کر چکا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے تو ملک کی سرکاری جامعات میں مالی بحران کی وجہ سے اساتذہ کرام اور دیگر ملازمین کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کا مستقبل بھی شدید طور پر متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اگر فی الوقت صرف صوبہ خیبر پختون خوا کی سب سے بڑی جامعہ پشاور یونیورسٹی کی بات کی جائے تو وہ اس وقت 70 کروڑ روپے کے خسارے سے دوچار ہے جبکہ یونیورسٹی میں ملازمین کی تعداد 3 ہزار سے زائد ہے جن کے لیے یونیورسٹی کو فوری طور پر 3 ارب روپے درکارہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق بجٹ میں یونیورسٹی کو 400 ملین روپے ملے جس میں ایک ارب 4 کروڑ سے زائد پنشن کی مد میں خرچ ہوچکے ہیں۔ یہ بات لائق توجہ ہے کہ جامعات کی فنڈنگ کی کمی کے بعد جامعات کی انتظامیہ کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کا فوری حل طلبہ کی فیسوں میں اضافے کی شکل میں سامنے آیا ہے جس کا خمیازہ طلبہ اور والدین کو بھگتنا پڑ رہا ہے جب کہ بعض بلکہ اکثر جامعات نے اپنے مالی خسارے سے نمٹنے کے لیے اپنے بعض اہم پروگرامات میں سیلف فنانس اسکیموں کو متعارف کرایا ہے جس کی قیمت جہاں معاشرے کے متوسط طبقے کو ادا کرنی پڑ رہی ہے وہاں اس کا اثر تعلیم اور تحقیق کے معیار پر بھی تنزلی کی صورت میں پڑ رہا ہے لہٰذا توقع کی جانی چاہیے کہ جہاں حکومت جامعات کوان کے مالی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے گی وہاں جامعات بھی اپنے غیر ضروری اخراجات کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیز کے لیے آمدن کے نئے ذرائع تلاش کرنے پر توجہ دیں گی۔