مذہب، آرٹ اور جمالیات

594

حکومت نے فلم ’’زندگی تماشا‘‘ کی نمائش پر پابندی کیا لگائی ملک کے سیکولر اور لبرل عناصر کے منہ سے کف جاری ہوگیا۔ کہا گیا کہ پاکستان میں ’’آرٹ‘‘ کو کچلا جارہا ہے۔ ’’آزادی اِظہار‘‘ پر پابندی لگائی جارہی ہے۔ غامدی صاحب کے شاگرد خورشید ندیم نے تو اس یہ ایک پورا ’’ماتمی کالم‘‘ ہی لکھ ڈالا۔ انہوں نے کیا فرمایا اس کا لب لباب انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’زندگی تماشا ہی تو ہے! جس ملک میں فلموں کی نمائش کا فیصلہ مذہبی جماعتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ہاتھ میں دے دیا جائے وہاں زندگی کیا موت بھی تماشا بن جاتی ہے۔ معاشرہ بھی انسان کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی جمالیاتی موت واقع ہوجائے تو سمجھیے کہ اس کی روح پرواز کرگئی۔ پھر جو دکھائی دیتا ہے وہ شخص ایک قالب ہوتا ہے۔ معاشرے کی جمالیاتی موت فرد کی موت کا بھی اعلان ہے۔ یہ آرٹ اور فنون لطیفہ ہیں جو سماج کی جمالیاتی حیات کا سامان کرتے ہیں۔ جہاں ان کا گلا گھونٹ دیا جائے وہاں زندگی پنپ نہیں سکتی۔ جس سماج میں قاری عبید الرحمن لحنِ دائودی میں الہام کی تلاوت نہ کریں، غالب اور اقبال غزل سرا نہ ہوں، خورشید انور سازو آواز کو ہم آہنگ نہ کریں، نصرت فتح علی نغمہ سرا نہ ہوں، صادقین کینوس پر رنگ نہ بکھیریں، اسے سماج نہیں قبرستان کہتے ہیں۔ ایک عرصے سے ہماری حسِ لطیف کو مارنے کی مہم جاری ہے۔ لوگ ہر اس مظہر کو مٹانے کے درپے ہیں جو میرے جمالیاتی وجود کی بقا کی ضمانت ہے۔ افسوس کہ اس کام کے لیے سب سے زیادہ مذہب کو استعمال کیا گیا۔ آج پاکستان دنیا کا واحد ’’اسلامی‘‘ ملک ہے جہاں فنونِ لطیفہ کا مستقبل بعض مذہبی تاویلات کی زد میں ہے۔ اب تو سعودی عرب بھی ہم سے آگے نکل چکا۔ ہمارے مذہبی طبقات جانتے ہیں کہ وہ ہوا کے مخالف رُخ پر کھڑے ہیں۔ ان کا چراغ تادیر نہیں جل سکتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ مذہب کی روشنی باقی نہیں رہے گی۔ مذہب انسان کی فطری طلب کا جواب ہے اور اسے باقی رہنا ہے۔ مسئلہ اس تعبیر کا ہے جو ان طبقات نے اختیار کرلی ہے۔ وہ اپنے فہم مذہب کو مذہب کے عنوان سے پیش کررہے ہیں۔ اس فہم کے دیے کا روغن اب ختم ہونے کو ہے۔ اہل مذہب کو اس کا اندازہ ہے۔ اس لیے وہ حیلوں بہانوں سے اس چراغ کو روشن رکھنا چاہتے ہیں۔
(روزنامہ دنیا۔ 27جنوری 2020ء)
امرائوالقیس عہد جاہلیت کے بڑے شاعروں میں سے ایک تھا۔ ایک بار کسی نے رسول اکرمؐ سے امرائو القیس کی شاعری کے بارے میں آپؐ کی رائے معلوم کی۔ رسول اکرمؐ نے امرائو القیس کی شاعری کی تعریف کی، فرمایا وہ نابینا مضامین کو بینا بنا دیتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپؐ نے فرمایا کہ وہ جہنم کے سرداروں میں سے ایک سردار ہوگا۔ رسول اکرمؐ کے اس ارشاد مبارکہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے صرف ادبی اور جمالیاتی بنیاد پر امرائو القیس کو سراہا مگر ہر آرٹ کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہوتا ہے۔ چناں چہ رسول اکرمؐ نے اس پہلو کی بنیاد پر امرائو القیس کی شاعری کو مسترد کردیا اور فرمایا کہ امرائو القیس اپنی شاعری کے کمزور اخلاقی پہلو کی وجہ سے جہنم میں جائے گا بلکہ وہ وہاں جہنمیوں کے سرداروں میں سے ایک ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلامی معاشرے میں آرٹ کی کوئی بھی صنف اخلاقی پہلو سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی تہذیب میں جمالیات کوئی آزاد خود مختار یا خود مکتفی چیز نہیں ہے بلکہ اسلامی تہذیب میں جمالیات ’’حق‘‘ کی ایک ’’فرع‘‘ یا اس کی ایک شاخ ہے۔ چناں چہ اسلامی معاشرے میں جمالیات اور حق کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے اور اگر ہوگا تو حق کو جمالیات پر کامل غلبہ اور فوقیت حاصل ہوگی۔ اسلامی تناظر میں دیکھا جائے تو بہترین آرٹ وہ ہے جو بیک وقت حق اور جمال کا مظہر ہو۔ خورشید ندیم ذرا بتائیں تو کہ جس آرٹ کی وہ بات کررہے ہیں ان میں سے کون سا آرٹ حق اور اس کی جمالیات کا مظہر ہے؟ ہم خورشید ندیم کو چیلنج کرتے ہیں کہ گزشتہ 72 سال میں ملک کے اندر جو پانچ سو پنجابی اور پشتو فلمیں بنی ہیں ان سے وہ صرف ’’آدھا کلو‘‘ جمالیات نکال کر دکھائیں۔ پاکستان نے گزشتہ 72 سال میں جو 500 اردو فلمیں بنائی ہیں ان سے وہ صرف ’’ایک کلو‘‘ جمالیات برآمد کرکے دکھائیں۔ حق کی جمالیات نہیں وہ جمالیات جس کو خورشید ندیم کا استاد مغرب ’’جمالیات‘‘ کہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری فلموں کا کوئی جمالیاتی پہلو ہی نہیں ہے۔ ہماری فلمیں عورتوں کے جسم کی نمائش سے بھری ہوتی ہیں اور صرف جسم کی نمائش کو تو ہالی ووڈ اور بالی ووڈ والے تک ’’جمالیات‘‘ نہیں کہتے۔ شبانہ اعظمی بھارت کی بڑی اداکارہ ہیں اور انہوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ بھارتی فلموں میں موجود ’’آئٹم سانگ‘‘ عورت کی بدترین تذلیل ہیں۔ اس لیے کہ ان گیتوں میں عورت صرف جنس کی ایک علامت کے طور پر پیش ہوتی ہے۔ بھارت کی ایک اور اداکارہ ہے اس کا نام کنگنا رناوت ہے۔ اس عورت کی ’’اخلاقیات‘‘ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر مجھے کچھ اور دن بھارت کی عام فلموں میں کام نہ ملتا تو میں فحش فلموں میں کام کرتی۔ اس کنگنا رناوت نے کہا کہ اگر کل ان کی کوئی بیٹی ہوئی تو وہ ہر گز نہیں چاہیں گی کہ ان کی بیٹی ’’آئٹم سانگ‘‘ دیکھے۔ مگر پاکستانی فلم ساز بھارتی فلموں کی نقل کرتے ہوئے اپنی فلموں کو ’’آئٹم سانگز‘‘ سے ’’سجاتے‘‘ ہیں اور خورشید ندیم جیسے لوگوں کو ان سے ’’جمالیاتی تجربہ‘‘ حاصل ہوتا ہے۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں موسیقی کو جمالیاتی تجربہ مہیا کرنے والی چیز اور انسان کو زندگی فراہم کرنے والی شے قرار دیا ہے۔ دنیا میں موسیقی کی سب سے بڑی روایت بھارت نے پیدا کی ہے۔ اس روایت کے آگے مغربی موسیقی کی روایت بچوں کا کھیل محسوس ہوتی ہے مگر ہندو ازم میں موسیقی کا تصور یہ ہے کہ جب انسان کی روحانی طاقت اسے خدا تک لے جانے کے قابل نہ رہی تو خدا نے ایک روحانی وسیلے کے طور پر موسیقی کو خلق کیا۔ ہم نے بھارت میں خود دیکھا کہ ایک پنڈت جی ’’نئی موسیقی‘‘ سنا کر اپنے کان بند کررہے ہیں۔ ہم نے پوچھا یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ کہنے لگے جو سنگیت آتما کو پرماتما سے نہ ملائے وہ ہانی کارک ہے۔ یعنی موسیقی بندے کو خدا سے نہ جوڑے وہ نقصان دہ ہے۔ چند ماہ پیشتر لتا منگیشکر سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ نئی موسیقی یا پاپ میوزک سنتی ہیں۔ کہنے لگیں نہیں۔ پوچھا گیا کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ اس میں سننے کے لیے کچھ ہوتا ہی نہیں۔ اب ذرا خورشید ندیم گزشتہ پچاس سال کے دوران پاکستان میں تخلیق ہونے والے ایسے ایک درجن گیت پیش فرمائیں جو بندے کو خدا سے جوڑنے والے ہوں؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری فلمیں جمالیاتی تجربہ کیوں نہیں ہوتیں۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری فلموں کی کہانی، کہانی ہوتی ہے نہ ان میں موجود اداکاری اداکاری ہوتی ہے۔ ہماری فلمیں بارہ مصالحے کی چاٹ ہوتی ہیں۔ ان میں آرٹ کیا آرٹ کی پیروڈی تک نہیں ہوتی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری فلموں کی اداکارائوں کی اچھی خاصی تعداد طوائفوں کے کوٹھوں سے آتی ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے۔ یہ بات Hidden Culture of Red Light District کی مصنفہ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔ طوائفوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔
“The tradition is that thre best of the lot is picked up by the film Industry. women in that proffession often pray to be selected by film directors and producers. The lesser talented among them join the stage.” (The News Karachi 26 january 2020)
ترجمہ:۔ ’’روایت یہ ہے کہ طوائفوں میں سے بہترین فلمی صنعت سے وابستہ ہوجاتی ہیں۔ جسم فروشی کے پیشے سے منسلک خواتین اکثر دعا کرتی ہیں کہ ان کو کوئی فلم ڈائریکٹر یا پروڈیوسر منتخب کرلے۔ کم ’’صلاحیت‘‘ کی حاملہ خواتین اسٹیج سے وابستہ ہوجاتی ہیں‘‘۔
خورشید ندیم صاحب یہ ہے آپ کا وہ ’’آرٹ‘‘ جس سے آپ معاشرے کو جمالیاتی تجربہ مہیا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلی ڈراما آرٹ کی واحد صنف ہے جس میں ایک زمانے تک آرٹ کے کئی عناصر موجود نظر آتے تھے مگر اب اس صنف کا یہ حال ہوگیا ہے کہ حسینہ معین جیسی ڈراما نگار نے کہا ہے کہ اب پاکستان میں بننے والے ڈرامے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھے جاسکتے۔ معروف شاعر اور ممتاز ڈراما نگار امجد اسلام امجد اس سے بھی آگے چلے گئے ہیں۔ انہوں نے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ہمارے بعض ڈرامے ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں شوہر اور بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ہے خورشید ندیم اور ان جیسوں کا وہ ’’آرٹ‘‘ جو معاشرے کو ’’مردہ‘‘ ہونے سے روکتا ہے۔
عہد حاضر میں آرٹ، اس کے مقاصد اور اس کی جمالیات کے سارے تصورات مغرب سے آئے ہیں۔ چناں چہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آرٹ، اس کے مقاصد اور جمالیات کی بحث ہو اور اس میں اردو کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری اور ان کے پسندیدہ ممتاز مغربی شاعروں اور ادیبوں کے خیالات کا ذِکر نہ ہو۔
عسکری صاحب نے اپنے ایک معرکہ آرا مضمون معروضیت اور ذمے داری میں فرانس کے ممتاز ادیب ژولیاں باندا کی تصنیف ’’عالموں کی غداری‘‘ کا ذِکر کیا ہے۔ عسکری صاحب کے بقول ژولیاں باندا فرانس کے گزشتہ ڈیڑھ سو سالہ ادب کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ اسے جلا دیا جائے۔ اس کی وجہ ژوالیاں باندا نے اپنی تصنیف ’’عالموں کی غداری‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہ ہر معاشرے کی متوازن نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کچھ اقدار ہوں جو قطعی غیر مادی اور غیر مرئی ہوں جنہیں بغیر کسی شرط کے قبول کیا جاتا ہو۔ باندا کے مطابق یورپ کی نشاط ثانیہ کے بعد فرانس میں غیر مادی اقدار ختم نشاۃ ہوتی چلی گئیں اور طبیعتوں پر مادیت غالب آتی چلی گئی۔ فرانس کے ادیبوں اور مفکروں کی غداری یہ ہے کہ انہوں نے مادی اقدار کی مزاحمت کرنے کے بجائے ان کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ سیکولر فرانس کے ایک ممتاز ادیب کے خیالات ہیں۔ ان خیالات سے ظاہر ہے کہ شعر و ادب یا آرٹ کی کوئی بھی شکل روحانی یا غیر مادی اقدار سے صرف نظر کرکے وجود میں نہیں آسکتی اور اگر ایسا ہوگا تو معاشرہ تباہ و برباد ہوجائے گا۔ خورشید ندیم ذرا بتائیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کتنی فلموں، ڈراموں، تصاویر اور موسیقی میں غیر مادی اقدار کی پیروی ہورہی ہے؟۔
عسکری صاحب نے اپنے مضمون میں دوسری مثال فرانس کے ممتاز ادیب اور فلسفی ژاں پال سارتر کی دی ہے۔ سارتر نے اپنے معرکہ آرا مضمون ادب کیا ہے میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانے کے فرانسیسی ادیب غیر موثر ہوگئے ہیں۔ ان کے پاس قارئین یا سامعین نہیں رہے۔ فرانس کا ادیب اکیلا ہوگیا ہے۔ چناں چہ اسے چاہیے کہ وہ ادب کو موثر اور جاندار بنانے کے لیے عوام کی زندگی میں دلچسپی لے، جو ناانصافیاں اسے نظر آئیں ان کے خلاف احتجاج کرے اور انقلاب کی خدمت کرے۔ خورشید ندیم ذرا بتائیں تو پاکستان میں تخلیق ہونے والی کون سی فلم معاشرے کی روحانی اقدار کے مطابق انقلاب برپا کرنے کے لیے خلق ہوئی ہے۔ کون سا ڈراما معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کا دعوے دار بن کر سامنے آیا ہے؟ کون سا مصور معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کے لیے تصاویر بنارہا ہے؟۔
عسکری صاحب امریکا کے ادیب اور شاعر ایزرا پاونڈ کو 20 ویں صدی میں انگریزی کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں ایزرا پاونڈ کے خیالات کا بھی ذکر کیا ہے۔ پاونڈ نے کہا ہے کہ ایک ادیب کی سب سے بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ الفاظ کے مفہوم کو مسخ نہ ہونے دے کیوں کہ الفاظ کا مفہوم مسخ ہوگیا تو پوری زندگی اور پورا معاشرہ ہی مسخ ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ قانون بھی ٹھیک طرح نہیں بن سکیں گے نہ ان پر ٹھیک طرح عمل ہوسکے گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں پاکستان کی فلمیں، ڈرامے، موسیقی اور مصوری ہماری تہذیب، تاریخ اور ہمارے الفاظ کی معنویت کو بدل بھی رہی ہے اور اسے مسخ بھی کررہی ہے۔ مگر خورشید ندیم کہہ رہے ہیں کہ یہ ’’تخریب‘‘ ہی ’’آرٹ‘‘ ہے اور اسی آرٹ میں ’’جمالیاتی تجربہ‘‘ بھی موجود ہے۔ خورشید ندیم زیر بحث موضوع کے حوالے سے اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور آرٹ کی اپنی روایت کا احترام نہیں کرتے تو نہ کریں۔ وہ کم سے کم مغرب کے ممتاز ادیبوں کی باتوں پر ہی کان دھرلیں۔