مہنگائی کی بھی تو حد ہونی چاہیے

395

حکومت اور خصوصاً وزیراعظم عمران خان مسلسل نشانے پر ہیں۔ وہ خود ایسا موقع فراہم کرتے ہیں کہ ان پر تنقید کی جائے، ان کے فیصلے اور جملے خود انہیں تنقید کی زد میں لے آتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر انہوں نے مشیر خزانہ کو بلا کر ہدایت فرمائی ہے کہ عوام کو ریلیف دیں ورنہ حکومت کرنے کا حق نہیں۔ مہنگائی کے خلاف ہر حد تک جائیں گے۔ وزیراعظم کا یہ اعلان بڑا خوش آئند ہے کہ عام آدمی کے کچن میں بنیادی ضرورت کی اشیاء ہر حال میں پہنچائیں گے۔ کسی بھی مد سے پیسے کاٹیں اور خریدنے کی سکت نہ رکھنے والوں کو سہولت دیں۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ حکومت نے کھانے پینے کی اشیاء سستے داموں فراہم کرنے کے معاملے پر غور کے لیے اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا۔ بعض تحفظات کے ساتھ یوٹیلیٹی اسٹورز کی کارکردگی کی تعریف بھی کی گئی۔ لیکن وزیراعظم تنقید کی زد میں اس لیے آئے کہ تقریباً 16 ماہ ہونے کو ہیں ان کی حکومت کو وہ اب بھی گزشتہ حکومتوں کی لوٹ مار کا رونا رو رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے مہنگائی ہے۔ ان کا الزام ذخیرہ اندوزوں پر بھی ہے۔ بس یہاں سوال ہوتا ہے کہ سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار کا رونا کب تک چلے گا۔ اس کی بھی کوئی حد ہوگی۔ اور وہ اعلان کر رہے ہیں کہ مہنگائی کے خلاف ہر حد تک جائیں گے تو مہنگائی کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ ہر آنے والے دن اشیائے ضرورت مہنگی ہو رہی ہیں۔ مافیاز کو الزام دیا جاتا ہے لیکن اب تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مافیاز بھی حکومت میں بیٹھی ہیں اور وزیراعظم عمران خان جن لوگوں کے سرپرست ہیں وہ ہی تو چینی اور آٹا مافیا ہیں۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ وزیراعظم، جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی آٹا اور چینی ملوں کی تلاشی کیوں نہیں لے رہے۔ یہی بات امیر جماعت اسلامی سراج الحق حکومت کے احتساب کے بارے میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب یہ سلسلہ نہیں چلے گا کہ تیرا چور مردہ باد، میرا چورزندہ باد۔ وزیراعظم کے اعلانات اپنی جگہ خوش آئند ہیں لیکن جو کچھ ہو رہا ہے وہ درست راستہ نہیں ہے۔ آٹا، گھی، چینی، دالیں سستی کرنے کا حکم تو دے دیا گیا لیکن کیسے۔ عالمی بینک کا مشیر یہ کام نہیں کرسکتا۔ وہ تو نئے ٹیکس لگاتے اور عوام کا خون چوسنے کی ترکیبیں ہی بتا سکتا ہے۔وزیراعظم نے غریبوں کو مفت راشن دینے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ بھی درست راستہ نہیں ہے۔ اسی طرح کسی بھی مد سے پیسے کاٹنے کا فیصلہ بھی درست راستہ نہیں ہے۔ غریبوں کو مفت راشن دینے کا اعلان اچھی بات ہے لیکن اس طرح غریبت ختم نہیں ہوگی۔ اصل اقدامات اشیائے ضروریہ کی وافر مقدار میں دستیابی اور ان کی قیمتوں پر کنٹرول ہے۔ ریاست مدینہ کی بات تو کی جاتی ہے لیکن ریاست مدینہ والے کام نہیں کیے جا رہے۔ ریاست مدینہ میں سود ختم کیا گیا تھا اور ریاست کے سربراہ نے سب سے پہلے اپنے خاندان کا سود معاف کیا تھا۔ یہاں ریاست ہی سودی قرضے لے رہی ہے۔ سودی نظام چلا رہی ہے۔ سود در سود کا دبائو غریبوں پر ہے۔ سود مرکب کے نظام میں کسی بھی مد سے پیسہ کاٹیں نقصان ہی ہوگا اور اللہ اور رسول سے جنگ ہی رہے گی۔ اس جنگ کا نتیجہ بھی وہی ہوگا۔ اب آئی ایم ایف نے تین سو ارب کے نئے ٹیکس لگانے کا حکم دیا ہے۔ سودی نظام میں جکڑے ہیں تو شرائط توماننا ہوں گی۔اگر جدید ماہرین معاشیات سے ہی پوچھ لیں تو وزیراعظم کو بتا دیں گے کہ کسی مد سے پیسہ کاٹنے سے کیا اثرات ہوں گے۔ اس مد میں کیا کریں گے۔ اس کے نتیجے میں تو اس مد میں بحران پیدا ہوجائے گا۔ وہ نقصان کہاں سے پورا ہوگا۔ہاں اگر اپنی تنخواہ ، وزراء اور ارکان پارلیمنٹ گی مراعات اور عیاشیوں میں سے پیسہ کاٹنے کا ارادہ ہے تو یقیناً کچھ فائدہ ہوگا ورنہ حکومت کے مشیر تو عوام کی رگ گردن ہی کاٹنے کا مشورہ دیں گے۔ جدید دنیا کی مثالیں دینے والے اور بیرون ملک دوروں میں اپنے ملک کی برائی کرنے والے وزیراعظم یہ بھی جانتے ہیں کہ ساری دنیا میں بتایا جاتا ہے کہ غریب کو مچھلی نہ دیں، مچھلی پکڑنا سکھائیں۔ یہاں مچھلی پکڑنا کون سکھائے گا۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک بڑی مچھلی ہیں لیکن ہاتھ صرف دوسرے کی بڑی مچھلی پر ڈالا جا رہا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان کی سیاسی ٹیم صرف وزیراعظم کے دفاع میں لگی ہوئی ہے۔ اگر اس ٹیم کو اپنے علاقوں میں بھیج دیا جائے اور ایک ماہ تک عوام سے براہ راست رابطہ کرکے وہ اشیائے خورونوش سستی کرنے کا طریقہ مانگیں تو یہ نالائق ٹیم بھی افسر شاہی سے بہتر نتائج لائے گی۔ وزیراعظم نے جو کلیہ پیش کیا ہے کہ اگر مہنگائی ختم نہ کی اور عوام کو ریلیف نہ دیا تو حکومت کرنے کا حق نہیں۔ اپنے کلیے کے اعتبار سے وزیراعظم حکومت کرنے کا حق کھو چکے ہیں۔ اور کتنا وقت درکار ہے۔ انہیں سب سے پہلے سابقہ حکومتوں کا رونا ختم کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں سے جان چھڑانی ہوگی اور ان کے مشیروں سے بھی اس کے بعد سیاسی کارکنوں کی مدد سے مسائل کے حل کی راہ نکالنی ہوگی۔ باتیں کرنا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن مہنگائی کی طرح باتوں کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ مہنگائی ختم ہوتی ہے نہ سود سے جان چھوٹتی ہے۔ کوئی حد ہوتی ہے اس کی بھی۔صرف باتوں سے ملک چلتا ہے نہ مسائل حل ہوتے ہیں۔