خو اہ کچھ ہو جائے!

367

وزیر اعظم عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے ، غذائی اشیاء کی قیمت کم کر کے رہیں گے ، مہنگائی کے ذمے داروں کا بھر پور محاسبہ کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان بڑا خوش کن ہے ۔ کاش اعلانات سے غریبوں کا پیٹ بھر سکتا ۔ عوام کا عمومی تاثر تو یہ ہے کہ ایسے اعلانات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ان کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ عمران خان کے بر سر اقتدار آتے ہی دودھ اور شہید کی نہریں نہ سہی ، عوام کو پیٹ بھر روٹی، سستی گیس بجلی ،صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی آسانی سے ملنے لگیں گی ۔ آئی ایم ایف کو دھتکار دیا جائے گا اور سب کو انصاف ملے گا ، دو پاکستان نہیں ایک پاکستان ہوگا جہاں سب سے یکساں سلوک ہو گا ۔ انہی دعوئوں اور وعدوں کی بنیاد پر بہت سے لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا کہ بس اب قسمت بدل جائے گی ، قوم کو مسیحا مل گیا ہے۔ لیکن ہوا اس کے بر عکس ہے۔ پتا نہیں عمران خان کبھی اپنے ان دعوئوں اور تقریروں کی ریکارڈنگ بھی سنتے ہوں گے یا نہیں انہوں نے کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے اور عوام کی مشکلات کا احساس ہے ۔ یہ بڑی قابل تعریف بات ہے کہ عمران خان کو18 ماہ بعد یہ احساس تو ہوا ۔ اب بھی نہ ہوتا تو غریب لوگ کیا کر لیتے ۔ جو کام اب کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے یہ وہ ہے جو اقتدار میں آتے ہی کر لینا چاہیے تھا ورنہ کم از کم  اس طرف پیش رفت تو نظر آتی تاکہ عوام کو اطمینان ہوتا ۔مگر اب تو تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے بھی اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں ۔ نجانے عمران خان تک یہ آوازیں پہنچتی بھی  ہیں یا اہالی موالی ان کے کان بند رکھتے اور سب اچھا کی رپورٹ پیش کرتے رہتے ہیں ۔ عمران خان کی نفس ناطقہ بی بی فردوس عاشق شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا دار کا کردار بخوبی ادا کر رہی ہیں ۔ یہی کام وہ پیپلز پارٹی میں رہ کر کرتی رہی ہیں ۔ اب بھی انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’ذخیرہ اندوزوں کو جانتے ہیں ، بچیں گے نہیں ‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے الزام سندھ حکومت اور سندھ کے آٹا ، شوگر ملوں پر لگا دیا ۔ خواجہ آصف قومی اسمبلی میں کہہ رہے تھے کہ شریف خاندان اور زرداری کی شوگر ملیں تو بند پڑی ہیں ، پھر چینی کی قیمت میں اضافے کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے ، شوگر ملوں کے 47 فیصد مالکان تو تحریک انصاف میں بیٹھے ہیں ۔ا س حوالے سے جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کانام سامنے آ رہا ہے جنہیں عمران خان کا اے ٹی ایم کہا جار ہا ہے ۔ کیا فردوس عاشق ان کے خلاف کارروائی کر سکیں گی ۔ ان کایہ کہنا کہ ذخیرہ اندوزوں کو جانتے ہیں ، آصف زرداری  کے اس دعوے کی یاد دلاتا ہے کہ بے نظیر کے قاتلوں کو جانتے ہیں۔ لیکن5سالہ دور حکومت میں انہوں نے بھی کبھی بی بی کے قاتلوں کی نشاندہی نہیں کی ۔ اب یہی بات فردوس عاشق اعوان کہہ رہی ہیں کہ سب کا پتا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عمرانی حکومت یا ان کی ترجمان ذخیرہ اندوزوں کا نام بھی بتا دیں ۔ ویسے یہ اندازہ تو ہے کہ وہ کس کس پر الزام دھریں گی ۔ وفاقی وزیر اسد عمر ، جن کے ایک بارپھر وزیر خزانہ بننے کی افواہ ہے ، کہہ رہے ہیں کہ ’’ کوئی شک نہیں مہنگائی بہت بڑھ گئی ، اس کی کمر توڑی جائے گی ، وزیر اعظم ذمے داروں کو اسی ماہ سزادیں گے ‘‘۔چلیے ، یہ بھی دیکھ لیا جائے گا ، دن ہی کتنے رہ گئے ۔ لیکن یہ وہی صاحب تو ہیں جنہوں نے خوش خبری سنائی تھی کہ عوام کی چیخیں نکلیں گی ۔ وہ اپنے دعوے میں پورے اترے ۔ اب حکومت کومہنگائی کی کمر کی تلاش ہے جسے توڑاجا سکے ۔ اب عمران خان نے جن اقدامات کا اعلان کیا ان میں50 ہزار نئی پرچون دکانیں کھولنا بھی شامل ہے ۔ جہاں سے سستی اشیاء ملیں گی ،دُکانداروں کو5لاکھ روپے تک کا قرض دیا جائے گا ،60 فیصد مال یوٹیلیٹی اسٹورز دیںگے ۔ ایسے اقدامات پر کیا تبصرہ کیا جائے ۔ کیا پرچون کی یہ دُکانیں ہر شہر کے  ہر محلے اور گائوں ، دیہات میں بھی کھلیں گی یا یہ بھی یوٹیلیٹی اسٹورز کی طرح محض چند مقامات پر ہوں گی؟ یوٹیلیٹی  اسٹورز کے بارے میں یہ کوئی رازنہیں کہ وہاںمعیاری اشیاء دستیاب نہیں اورقیمت میں بھی کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا ۔ حکومت سے یوٹیلیٹی اسٹورز تو سنبھل نہیں رہے اور پرچون کی دکانیں کھولی جار ہی ہیں ۔ دکانداروں کو جو قرض دیا جائے گا اس پر نظر کون رکھے گا ؟مہنگائی کی کمر توڑنے والوں نے اگلے ہی دن ایل این جی کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی ٹوٹی کمر پر نیا بوجھ رکھ دیا ۔ایل این جی سے بجلی تیار ہوتی ہے اور یہ صنعتوں کو فراہم کی جاتی ہے ۔ چنانچہ بجلی اور صنعتی اشیاء مزید مہنگی ہوں گی ۔