سندھ کا سپوت: شہید محمد عظیم بلوچ

370
ممتاز حسین سہتو
ممتاز حسین سہتو

۔ ۔ ۔  ممتاز حسین سہتو ۔ ۔ ۔

سر زمین سندھ کو اللہ تعالیٰ نے باب الاسلام کی عزت سے نوازا ہے۔ یہ بڑی مردم خیز رہی ہے۔ ماضی قریب میں جب تحریک پاکستان شروع ہوئی تو سندھ کے لوگوں کا کردار نمایاں تھا۔ وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صورت میں ہو یا حر کی قربانی اور جدوجہد کی شکل میں۔ اس خطے میں جب سید مودودیؒ نے اسلام کو غالب کرنے کے لیے پکارا تو یہاں سے ان کو مثبت جواب ملا۔

Azeem-Baloch
محمد عظیم بلوچ شہید

سندھ کا مسٹر یا عالم سید مودودی ؒ کی تحریر سے متاثر ہوا۔ ان خوش نصیبوں میں علامہ اقبال کے استاد مولانا علی محمد کاکیپوتہ، سندھ پنجاب کے بڑے دارالعلوم ٹیھڑی کے مہتمم مولانا حبیب اللہ میمنؒ، استاد العلماء مولانا محمد اسمٰعیل عودیؒ، چودھری غلام محمدؒ، مولانا علی محمد لاشاری، قاضی عبد الرزاق، منصورہ سندھ کے بانی مولانا شفیع محمد نظامانیؒ، مولانا جان محمد بھٹو، مولانا جان محمد عباسیؒ، پروفیسر عبد الغفورؒ احمد، مفتی دائم الدین، محمود اعظم فاروقیؒ، ممتاز قانون دان اے کے بروہی، میاں محمد شوکت، حافظ محمد حیات، پروفیسر محمد عثمان رمز، ڈاکٹر محمد اطہر قریشی اور دیگر سیکڑوں افراد شامل ہیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی محمد عظیم مرحوم کی بھی ہے۔ ان کے والد مر حوم گل محمد مستوئی ضلع نوشہرو فیروز میں سندھو دریا کے کنارے بھورٹی کے نزدیک پرتو فقیر مستوئی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابھی تک مستوئی خاندان کی کچھ زمین آباد اور کچھ غیر آباد زیر آب کچے (دریا کے پیٹ) میں موجود ہے۔ مرحوم گل محمد مستوئی نے دو نکاح کیے ایک اہلیہ گاؤں فقیر عبداللہ مستوئی میں اور دوسری شہداد پور میں رکھی۔ پہلی بیوی سے اشرف مستوئی، رستم مستوئی اور ایک بیٹی۔ دوسری بیوی سے تین بیٹے محمد عظیم، محمد وسیم، فرہاد گل، اور ایک بیٹی تھی۔ شہید محمد عظیم کی تعلیم و تربیت شہداد پور میں ہوئی۔

شہداد پور میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور فکر مودودی میں اتنا رچ بس گئے اسلام کی انقلابی دعوت کے لیے کراچی سے کابل ٹھٹھہ سے چمن سفر کیا مسلسل سفر میں ہی رہے اپنی جوانی کے قیمتی لمحات عالمگیر اسلامی تحریک کو دے کر جام شہادت نوش کیا۔ شہید محمد عظیم بلوچ بھائی میں فقیری اور درویشی خاندانی تھی۔ سادگی ان کا حسن تھا۔ کھانے سونے میں کوئی تکلف نہیں تھا۔ مرد درویش فقیر پرتو مستوئی کے پوتے نے ثابت کردیاکہ جو مزا فقیری میں ہے وہ امیری میں نہیں۔ مہمان نوازی، دل کی کشاد گی اور ملن ساری ان کو ورثے میں ملی تھی۔ عظیم بھائی سے 19 اکتوبر2019 کو رات دفتر جماعت اسلامی سندھ میں بہت طویل ملاقات ہوئی جماعت کے تنظیمی امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ ماضی حال اور مستقبل پر گفتگو ہوتی رہی۔ عظیم بھائی کی فرمائش پر ان کے ساتھ ناشتہ کیا۔ ناشتے میں مولانا انس مدنی امام مسجد قباء کراچی موجود تھے۔ پھر شام کو ہم نے حیدر آباد کا سفر کیا۔ حیدر آباد میں کشمیر میں ظلم و ستم کی تصویری نمائش دیکھی اور وہاں سے ہالا روانہ ہوگئے۔ ہالہ سے میں سلطان سہتو گوٹھ روانہ ہوا۔ جہاں شہادت حسین کانفرنس کا پروگرام تھا۔ عظیم بھائی کو بہت کہا کہ آج رات بھی ہمارے ساتھ رہیں لیکن انہوں نے اپنی مجبوری بتائی اور شہداد پور روانہ ہوگئے۔اس رات عظیم بھائی سے بہت باتیں کرنے کا جی چاہ رہا تھا کیوں کہ میرا تعلق ان سے پرانا تھا۔ ان سے پہلی ملاقات 1987 میں محراب پور جماعت اسلامی کے دفترمیں ہوئی تھی۔ اور پھر کافی ملاقاتیں اور نشستیں رہیں ہیں۔ اکتوبر 1988 میں جمعیت سے فارغ ہوگیا۔ سراج الحق صاحب ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے حیدرآباد جمعیت کے دفتر میں مجھے طلب فرمایا اور بلوچستان جمعیت کو سنبھالنے کی بات کی لیکن میں نے معذرت کی۔ جمعیت سے فراغت کے بعد پھر جمعیت کی تنظیم کی طرف مڑکرنہیں دیکھا۔ صرف اجتماعات اور پروگرامات کی دعوت ملتی تو شرکت کی۔ شہید محمد عظیم مستوئی نے پوری زندگی جمعیت کی رکنیت، نظامت اور سرپرستی کی صورت میں گزاری اور جمعیت سے اپنے تعلق کو خوب نبھایا۔

عظیم بھائی سے میرا ایک تعلق یہ بھی رہا میں حزب المجاہدین کا پہلا صدر تھا میرے بعد عظیم بھا ئی صدر رہے۔ میں شباب ملی سندھ کا پہلا صدر تھا۔ میرے بعد عظیم بھائی صدر تھے۔ عظیم بھائی تھو ڑے سے عرصے میں بہت سارے مورچوں پر نظر آئے۔ کبھی سانگھڑ کبھی سنجھورو، تو کبھی نوابشاہ تو کبھی تھر اور کبھی بلوچستان کبھی ناظم جمعیت سندھ، ناظم جمعیت بلوچستان، صدر حزب المجاہدین، صدر شباب ملی، نظم شہداد پور اور ضلع غربی کراچی جماعت، نظم صوبہ جماعت۔ عظیم بھائی بہت تیز چلنا چاہتے تھے جب بھی ملاقات ہوئی تو ایک جملہ کہتے ممتاز بھائی! کچھ کرنا چاہیے۔وہ کتابی جماعت اسلامی دیکھنا چاہتے تھے۔ میں ان سے کہتاکہ بہتر سے بہتر کی کوشش ضرورکرنی چاہیے لیکن آپ جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ سبزی مارکیٹ میں نہیں ہے اس لیے جو موجود ہے اس پر گزارا کرو۔ جب وہ تجاویز کے انبار لگا دیتے پھر میں انہیں کہتا کہ تجاویز کی جگہ یہ نہیں ہے مسکراکر چل دیتے۔ شہید عظیم بھائی سے 13 دسمبر کو ٹنڈوالہیار میں جماعت اسلامی کے اجتماع ارکان میں ملاقات ہوئی میں نے چاہا کہ وہ آج میرے ساتھ رہیں۔ لیکن انہوں نے مصروفیت بتا کر معذرت کی۔ پھر دوسرے دن انہوں نے فون پر کہا کہ مجھے ضروری کام تھا ورنہ آپ کے ساتھ رہ کر خوشی ہوتی۔ ٹھیک ایک مہینہ کے بعد 13 جنوری صبح 3 بجے جب فون بجا تو فوراً اٹھایا کیونکہ عموماً اس وقت فون پریشانی والے ہوتے ہیں معلوم ہوا کہ عظیم بھائی اپنے ساتھیوں کے ساتھ حادثہ کا شکار ہوگئے۔ تو سمجھ میں آگیا کہ عظیم بھائی یہ جملہ کیو ں کہتے تھے۔ ’’ممتاز بھائی کچھ کرنا چاہیے‘‘۔ بس انہیں جانے کی جلدی تھی۔ شہادت ان کا انتظار کر رہی تھی۔ نیند تو اڑ گئی ڈرائیور کو فون کیا گھر سے نکل آؤ۔ بارش ہو یا سردی لیکن اس راہ پر چلنا ہے جس پر عظیم بھائی نے سفر کیا۔ عظیم بھائی نہ بھی ہوں لیکن نشانات ضرور ہوںگے وہ نوابشاہ روڈ سے محراب پور جماعت اسلامی کے بزرگ جمیل احمد مرحوم کی دعائے مغفرت کرنے آئے تھے۔ میں نے اپنی نظریں نوابشاہ روڈ کی دونوں جانب پر پھیلا دی کہ روڈ کے کنارے کو دیکھنا ہے کہ عظیم بھائی یہاں سے گزرے ہوںگے دماغ پر عظیم بھائی کا عکس تھا۔ اور اس کے پیچھے عرفان بھائی اور غلام رسول بھائی نظر آرہے تھے۔ خیالوں کی دنیا میں گم زندگی کی بے وفائی، ملک الموت کی آمد، اللہ کا حکم سب معلوم تھا۔ پھر بھی سوچوں میں اداسی، آنکھوں کی نمی، جیسے ہم سفر بن گئی ہو۔ ضرورت محسوس کی کہ اپنے آپ کو بھی سمجھایا اور پڑھایا جائے۔ بڑھتے بڑھتے نوبشاہ آگیا طارق جاوید انجم بھائی کا فون آیا وہ بھی شامل سفر ہوگئے میں بھی ان ہی سے ملنا چاہتا تھا کہ کیا ہوا۔ انہوں نے صورتحال بتائی سننے کی ہمت نہیں ہورہی تھی ایک ایک لفظ درد بھرا تھا۔ میں نے طارق جاوید بھائی کی تحسین کی۔ ہم لوگ 1بج کر15 منٹ پر جامعہ مدرسہ حسینی شہداد پور پہنچے شہید عرفان لاکھو کا جنازہ تیار تھا۔ جماعت کے پرانے ساتھی منیر احمد سومرو صاحب نے پہلی صف میں جگہ دی۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد رات کا انتظار تھا، امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب کو آنا تھا، انتظار کی گھڑیاں بالآخر ختم ہوئیں۔ رات 9 بجے امیر جماعت آگئے۔ دو ساتھیوں شہید عظیم بلوچ اور شہید غلام رسول کے جنازے ہزاروں لوگوں کے درمیان موجود تھے۔ ہر انکھ اشکبار، کراچی سے کشمور تک کی جماعت کی قیادت موجود تھی۔ نوجوانوں کا جم غفیر تھا۔ اس موقع پر محترم سراج الحق صاحب نے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور نماز جنازہ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہدا کا راستہ کامیابی اور جنت کا راستہ ہے۔ دین کی راہ میں اپنی پوری زندگی وقف کرنا ان شہدا کا پیغام ہے۔ ہر ایک نے شہداء کی زیارت کی اور جنازے کو کاندھا دیا۔ میں نے بھی عظیم بھائی کو الوداع کہا اس امید کے ساتھ کہ ان شاء اللہ جنت میں ملاقات ہوگی۔

شہید عظیم بھائی سے 32 سال کی رفاقت یقینا بہت ساری یادیں اور احساسات کی دنیا میں ایک سمندر جسے میں قلم بند کرنے سے قاصر ہوں۔ سید مودودی کے چراغ جسے 32 سال پہلے دیکھا تھا۔ آج وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا جیسے چاند گھٹا ٹوپ بادلوں میں چھپ جاتا ہے۔ لیکن شہید کی محبت، گفتگو کی شیرینی، نعروں کی گونج، تقریری ولولہ، میدانوں کا شہسوار، حق کے علمبردار، تحریک اور تحرک کی تصویر، کوئی بھلانا چاہے بھی تو بھلا نہیں سکتا۔ شہید عظیم بھائی کی اجتماعیت میں بے باکی کو میں داد دیتا ہوں۔ خصوصاً جب نظم صوبہ میں شامل ہوگیا تو اپنے ساتھ ایک درجن نوجوانوں کو جمع کیا، نوجوانوں کے جھرمٹ میں ان کی زندگی تھی۔ ساتھیوں کے ذاتی اور نجی مسائل پر بھی وہ زبر دست وکیل تھے اب تلاش کرنے سے بھی شہید عظیم بھائی نہیں ملیں گے۔ لیکن اس کا کردار زندہ ہے جو کراچی سے خیبر تک نظر آئے گا۔ اللہ ان کی حسنات کو قبول فرمائے۔آمین