عوام سے سنگین مذاق

458

بہت ہو چکا ، حکومت کو اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، ورنہ یہ بات سچ ثابت ہو گی کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے ہی بوجھ تلے بیٹھ جائے گی ۔ عوام مہنگائی کے طوفانوں سے عاجز آ گئے ہیں لیکن حکمرانوں کی بے فکری اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ گزشتہ منگل کو عوام کے ساتھ ایک اور بھیانک مذاق ہوا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے بڑا کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ کئی دن سے ایک شور تھا کہ عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لیے ایک بڑا منصوبہ یا پیکیج لایا جا رہا ہے اور اندر سے کیا نکلا!۔ عمران خان کی صدارت میں کابینہ کا اہم اجلاس ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ جو چینی اب تک68 روپے کلو میں بک رہی تھی اب وہ 70 روپے کلو ہو گئی اور گھی یا خوردنی تیل جو170 روپے میں مل رہا تھا،اب وہ’’سستا‘‘ ہو کر175 روپے کلو میں ملے گا ۔ یہ اشیائے ضرورت سستی ہوئی ہیں یا مہنگائی کو قانونی شکل دے دی گئی ہے ۔ اگر یہ مذاق ہے تو اس کا نقصان حکمرانوں ہی کو ہو گا کیونکہ عوام تو ایسے مذاق کے عادی ہو چکے ہیں ۔ ایک اور لطیفہ یہ ہے کہ عمران خان کی ترجمان فردوس عاشق اعوان فرما رہی تھیں کہ چینی70 روپے کلو ملے گی اور مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کہہ رہے ہیں کہ چینی68 روپے کلو ملے گی ۔ یعنی خود حکمران طبقے میں اتفاق نہیں یا اشیائے ضرورت کی قیمتوں سے آگاہی نہیں ۔ مشیر خزانہ نے ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کی رپورٹ دی ہے ۔ حکمران طبقہ گالی پروف ہو چکا ہے اس کے باوجود قومی اسمبلی میں اگر کوئی وزیر اعظم کی کارکردگی پر تنقید کرے تو سیاست میں نو آموز’’چھوٹے‘‘ برہم ہو جاتے ہیں ۔ ایک جونیر وزیر گزشتہ منگل کو اس پر برہم ہو گئے کہ بلاول نے انہیں چھوٹا وزیر کیوں کہا ۔ جس پر بلاول نے یاد دلایا کہ عمران خان نے تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں کہا تھا کہ ایک چھوٹا شخص بڑے منصب پر بیٹھا ہے ۔ کئی ممالک میںجونیر وزیر کی اصطلاح رائج ہے ۔ اس پر ناراض ہونا چھوٹے ذہن کی علامت ہے ۔ بہر حال، قومی اسمبلی کے اجلاس میں منگل اور بدھ کو عوام کو در پیش مسائل اور مہنگائی پر تو کوئی بحث نہیں ہوئی ، دونوں دن جھگڑے ہی ہوتے رہے اور ایک دوسرے پر الزامات کی فراوانی دیکھنے میں آئی ۔ بدھ کو تو ہاتھا پائی کی نوبت آتے آتے رہ گئی ۔ قومی اسمبلی کا رہا سہا وقار مجروح کرنے میں کوئی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔ یہ صورتحال حکمرانوں کے حق میں ہے کہ عوام کے نمائندے بیکار باتوں میں اُلجھے رہیں ۔ جہاں تک کابینہ کے فیصلوں کا تعلق ہے تو حکمرانوں سے کون پوچھے کہ کیا تیر مارا گیا ۔ چینی اور گھی کی قیمت میں اگر چند روپے کی کمی کی بھی گئی ہے تو یہ کمی یوٹیلٹی اسٹورز سے حاصل ہو گی ۔ یعنی لوگوں کو قطار میں لگا کر دو روپئے کی رعایت حاصل کرنا ہوگی ۔ جہاں تک آٹے کا تعلق ہے تو اس کی قیمت40 روپے کلو مقرر کر دی گئی ہے یعنی اس میں بھی کوئی رعایت نہیں کی گئی ۔ آٹا70 روپے کلو تک پہنچ گیا تھا لیکن اس میں’’مافیاز‘‘ کا ہاتھ تھا ۔ عمران خان بار بار مافیائوں کی بات کرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ ان مافیائوں کے نام آشکار کیے جائیں گے ۔ فی الحال تو گھی کی قیمت میں5 روپے اور چینی دو روپے مہنگی کرنے سے خود حکومت نے سب سے بڑی مافیا ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ حکمران طبقے کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جب ٹماٹر مہنگے ہوئے تھے تو ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ ٹماٹر کے بجائے دہی استعمال کیا جائے اور اب آٹا مہنگا ہونے پر کہا گیا کہ کبھی چاول بھی کھا لیا کرو ۔گویا چاول بہت سستے ہیں ۔ ان صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں چاول شوق سے کھایا جاتا ہے اور گندم کے بجائے مکئی کی روٹی استعمال کی جاتی ہے ۔ٹماٹر17 روپے کلو اورمٹر5 روپے کلو بکنے والا لطیفہ تو پرانا ہو گیا ۔ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ حکمران طبقہ عوام کے مسائل کے حل میں قطعاً سنجیدہ نہیں ۔ سب اچھا کی رپورٹ دینے والے مشیر خزانہ شاید کبھی بازارنہیں گئے ۔ ان کو دوسرے بتاتے ہوں گے کہ سب اچھا ہے ۔ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ کیا مشیر خزانہ ہو گا اور کیا کر سکے گا ۔ حکمران یا تو سابق حکومتوں پر ملبہ ڈال دیتے ہیں یا اب آٹے چینی کے بحران کی ذمے دار ی سندھ پر ڈال دی ہے ۔ عجیب بات ہے کہ پنجاب کے کئی شہروں میں چھاپوں کے نتیجے میں چینی کی بوریاں برآمد ہوئی ہیں ۔ کیا یہ ذخیرہ اندوزی بھی سابق حکومتوں کی وجہ سے ہے ۔ دالیں دس سے پندرہ فیصد سستی کی جائیں گی لیکن ملیں گی یوٹیلیٹی اسٹورز سے ۔ یعنی سب کو لائنوں میں لگا دیا جائے گا۔ اب راشن کارڈ جاری کرنے کی تجویز بھی ہے ۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کو15 ارب روپے کا پیکیج دیا جا رہا ہے ۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ کا محاورہ تو سنا ہو گا ۔