ساجھے کی ہنڈیا اور بارہواں کھلاڑی

329

گزشتہ سال حضرت مولانا فضل الرحمن کے دھرنے نے پاکستانی سیاست میں شدید بھونچال پیدا کردیا تھا۔ مولانا عمران خان کے استعفے سے کم پر راضی نہ تھے۔ لاکھوں لوگ اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے وہ اپنے امیر محترم کے ایک اشارے پر ریڈ زون کی طرف مارچ کے منتظر تھے کہ سیاسی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے مذاکرات کمیٹیاں بن گئیں اور بات چیت ہونے لگی۔ حکومت اس بات چیت میں اپوزیشن کی بہت سی باتیں ماننے کو تیار تھی لیکن اپوزیشنیں یعنی حضرت مولانا کا (کہ وہی اس بارات کے دولہا تھے) ایک ہی مطالبہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان استعفا دیں اور وزیراعظم ہائوس چھوڑ کر بنی گالا واپس چلے جائیں۔ عمران خان اس پر تیار نہ تھے جب انہوں نے دیکھا کہ اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی اپنی بات پر اَڑی ہوئی ہے اور مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی تو انہوں نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا البتہ گجرات کے چودھریوں کو اشارہ کیا کہ حضرت مولانا کو منانے کا محاذ وہ سنبھال لیں۔ چناں چہ چودھری پرویز الٰہی نے حضرت مولانا کو ایسا شیشے میں اُتارا کہ انہوں نے اگلے ہی دن دھرنے کے شرکا کو واپسی کا اذن دے دیا اور بڑے اعتماد سے فرمایا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں اور عنقریب قوم کو خوشخبری ملے گی۔ اخبار نویسوں نے چودھری پرویز الٰہی کو کریدنے کی بہتیری کوشش کی کہ انہوں نے حضرت مولانا کو کیا یقین دہانی کرائی ہے لیکن وہ ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ البتہ حضرت مولانا یہ دعویٰ کرتے رہے کہ حکومت کا خاتمہ قریب ہے۔ گئی کہ گئی۔ آخر سال گزر گیا۔ نیا سال آگیا اور نیا سال کا دوسرا مہینہ گزر رہا ہے لیکن ابھی تک حکومت جانے کے آثار نہیں ہیں، البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ ساجھے کی ہنڈیا میں اُبال آگیا ہے۔ حکومت کے سارے اتحادی عمران خان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں اور جن شرائط کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئے تھے انہیں پورا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عمران خان اتحادیوں سے بات چیت اور انہیں منانے کے لیے کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنارہے ہیں لیکن بات نہیں بن پارہی۔ اتحادیوں کی شرائط اور مطالبات پورے کرنا عمران خان کے بس میں نہیں ہے۔ ایسے میں اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ اتحادیوں کے حکومت میں رہنے یا اسے چھوڑنے کا فیصلہ ’’کہیں اور‘‘ سے ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ ’’کہیں اور‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے۔
دوسری طرف شریف برادران لندن میں بیٹھ کر پاکستانی سیاست کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ ان کے ایما پر مسلم لیگ (ن) چودھری برادران کے ساتھ رابطے میں ہے۔ یہ وہی چودھری برادران ہیں جنہیں میاں نواز شریف نے سعودی عرب کی جبری جلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر منہ لگانے سے انکار کردیا تھا۔ میاں صاحب کو گلہ تھا کہ چودھریوں نے جنرل پرویز مشرف کی سیاسی بیساکھی بن کر انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور فی زمانہ وہ اصولوں سے بھی عاری ہے، اس لیے (ن) لیگ اور (ق) لیگ کے ملاپ کے بارے میں بہت سی باتیں سننے میں آرہی ہیں۔ لیکن چودھری برادران بچ بچا کر کھیلنے کے عادی ہیں وہ بادشاہ گر قوتوں کے تیور بھی پہچانتے ہیں۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ اگر اِن قوتوں نے اتحادیوں کو حکومت سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا تو چودھری برادران بھی پنجاب میں
تبدیلی کے لیے شریفوں سے معاملات طے کرلیں گے، ان کا سرفہرست مطالبہ یہی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ عمرانی حکومت سے نجات کے لیے مسلم لیگ (ن) کو یہ مطالبہ ماننے میں کوئی عار نہیں ہے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں (ن) لیگ دوسری بڑی پارٹی ہے اور پنجاب کی وزارت عُلیا کے لیے اس کے امیدوار حمزہ شہباز ہیں لیکن وہ حکومت کی تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے امیدوار کی قربانی دینے کو تیار ہے۔ البتہ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ’’کہیں اور‘‘ سے تبدیلی کا بگل بجے گا۔ ادھر میاں نواز شریف کی صحت ایک بار پھر موضوع بحث بن گئی ہے۔ میاں صاحب کو بہت ردوکد کے لندن جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن لندن میں میاں صاحب کی جو نقل و حرکت منظر عام پر آئی اس نے حکومت کو کفِ افسوس ملنے پر مجبور کردیا اور عمران خان نے برملا کہا کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ اب عدالت کی طرف سے میاں صاحب کو دی گئی مہلت بھی ختم ہوگئی ہے۔ اسی مہلت میں اضافے کے لیے لندن سے ایک میڈیکل رپورٹ بھیجی گئی ہے جس پر ابھی تک پنجاب حکومت کا مقرر کردہ میڈیکل بورڈ کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اس فیصلے کا تعلق مریم نواز کی لندن روانگی سے بھی ہے وہ اپنے باپ کی تیمارداری کے لیے لندن جانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے حکومت کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار رکھنے کے لیے پُراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جب کہ لندن سے حکومت پر دبائو ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستانی میڈیا میں اس قسم کی خبریں شائع کرائی جارہی ہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی کی موجودگی کے بغیر اپنا ٹریٹمنٹ کرانے سے انکار
کردیا ہے۔ اخبارات نے شہباز شریف کا یہ بیان بھی نمایاں انداز میں شائع کیا ہے کہ میاں نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے۔ مریم کو لندن آنے کی اجازت دی جائے۔ اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے۔ دیکھیے وہ اسے کیسے کھیلتی ہے۔
ہم نے کالم کے آغاز میں حضرت مولانا فضل الرحمن اور ان کے دھرنے کا ذکر کیا تھا اب پھر اسی موضوع کی طرف آتے ہیں۔ مولانا اُس وقت اپوزیشن ٹیم کے اوپپنگ بیٹسمین بنے ہوئے تھے۔ باقی سب ان کے پیچھے قطار باندھے کھڑے تھے لیکن پھر چودھریوں نے انہیں ایسی گگلی کرائی کہ انہیں اپنے آئوٹ ہونے کا پتا ہی نہ چل سکا اور وہ فاتحانہ انداز میں بیٹ لہراتے ہوئے پویلین میں واپس چلے گئے۔ وہ اپنی دانست میں دعوئوں اور یقین دہانیوں کی پوٹلی اُٹھائے اسلام آباد سے رخصت ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے اس پوٹلی کو کھولا تو اس میں کچھ بھی نہ تھا۔ اب وہ ’’آزادی مارچ‘‘ کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے والے ہیں اسے ’’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن ہمارے دوست کہتے ہیں کہ حضرت مولانا اپوزیشن کی ٹیم میں اوپپنگ بیٹسمین کی پوزیشن کھو چکے ہیں اب ان کی حیثیت ٹیم کے بارہویں کھلاڑی کی سی ہے۔ اگر کھیلنے کا چانس مل گیا تو ٹھیک ورنہ انتظار ہی مقدر رہے گا۔ انہوں نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے جو موضوع چنا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام کی سیاسی حرکیات کو سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں۔ آئین کا تحفظ عوام کا مسئلہ نہیں ہے ان کا مسئلہ مہنگائی ہے جس نے انہیں دن میں تارے دکھا دیے ہیں۔ مہنگائی کا ایشو اُٹھا کر حکومت کا ناطقہ بند کیا جاسکتا ہے لیکن حضرت مولانا مہنگائی کا ذکر کرکے اپنی زبان کو آلودہ نہیں کرنا چاہتے۔
سمجھ میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کیا کہیے!