عوامی مسائل اور لندن یاترا کی خواہش

252

محمد اکرم خالد
اس بات میں اب کوئی دو آراء نہیں کہ مہنگائی کے سونامی، معیشت میں ناکامی، مسئلہ کشمیر پر راہ فرار اختیار کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے جاری ہے جہاں یہ تحریک انصاف کی ناکامی ہے کہ وہ ڈیرھ سال میں غریب عوام کو کوئی ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے وہاں یہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں بالخصوص اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کی بڑی ناکامی ہے کہ اپنے ذاتی تحفظات کی خاطر ن لیگ کی قیادت نے اس قوم کو ظالم حکمرانوں کے سپرد کر کے لندن کی ٹھنڈی ہوائوں میں پُرسکون زندگی گزارنے کا انتخاب کیا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف لندن کی سرد ہوائوں میں سکون فرما رہے ہیں اور یہ قوم غربت کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ اس ملک و قوم کی بدنصیبی رہی ہے کہ جب بھی اس قوم نے ضرورت سے زیادہ جس حکمران سے اپنے مسائل کے حل کی اُمید وابستہ کی اُسی حکمران نے اس قوم کی پیٹھ پر خنجر گھونپا ہے۔
اس وقت ملک معاشی سیاسی مسائل کے بھنور میں ہچکولے کھا رہا ہے مہنگائی کا سونامی اس قوم کو روٹی، کپڑا، مکان سے محروم کر رہا ہے مہنگائی نے غریب عوام کو تین وقت کی روٹی سے ایک وقت کی روٹی پر گزر بسر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ علاج تعلیم روزگار غریب کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کی سزا اس قوم کو مہنگائی کی صورت میں دی جارہی ہے۔ سب اچھا ہونے والا ہے، گھبرانہ نہیں ہے کا راگ الاپ کر خان صاحب ایک بار پھر اس قوم کو دھوکا دے رہے ہیں یقینا خان صاحب نے قومی خزانے پر ماضی کے حکمرانوں کی طرح ہاتھ صاف نہیں کیا ہوگا مگر کرپشن کی زد میں خان صاحب کی ذات بھی ملوث پائی جاتی ہے، فارن فنڈنگ کیس جو پچھلے پانچ سال سے فیصلے کا منتظر ہے اس پر موجود ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت بھی انصاف کرنے سے قاصر رہی ہے ساتھ ہی اس وقت ملک میں آٹے چینی کا بحران سوچی سمجھی سازش کے تحت پیدا کیا گیا جس کا فائدہ خان صاحب کے ہر دلعزیز ساتھی جہانگیر ترین خسرو بختیار کو پہنچایا گیا مگر ان کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی جبکہ کے پی کے میں خان صاحب کی حکومت گرانے کی سازش کرنے والے تین صوبائی وزارء کو فوری طور پر فارغ کر دیا جاتا ہے کیوں کہ یہ غریب عوام کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ میرے اُس کپتان کے اقتدار کو گرانے کی سازش تھی جو اس ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر بنانے کا منجن بیچ رہے ہیں۔ یہ ہے تحریک انصاف کے انصاف کا معیار اگر کل کے حکمران بقول خان صاحب کہ چور ڈاکو تھے تو آج کی یہ حکومت کیسے صادق و امین ہوسکتی ہے۔
یہ قوم برسوں سے کبھی حکومت تو کبھی اپوزیشن کی نااہلیوں کا شکار رہی ہے یقینا مولانا فضل الرحمن نے حکومت مخالف جس تحریک کا آغاز کیا تھا وہ کامیاب ہوسکتی تھی۔ مگر اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔ جہاں بلاول زرداری نے مولانا کو سیاسی طور پر ناکام کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا وہاں وہ مریم بی بی جن سے اس قوم کو نواز شریف سے زیادہ اُمیدیں وابستہ تھیں اُنہوں نے نجانے کس دبائو کی بنیاد پر خاموشی کا روزہ رکھا کہ آج وہ اس مسائل زدہ غربت سے تنگ اس عوام کو بقول
ان کے یہ ظالم حکومت ہے تو پھر وہ کیسے اس غریب عوام کو ظالموں کے سپرد کر کے لندن جانے کے لیے سر گرم ہوسکتی ہیں، کیا ووٹ کو عزت دو کا راگ لندن جانے اور سیاسی فائدے کے لیے الاپا جارہا تھا؟۔آج ملک سیاسی معاشی دفاعی بحران کی زد میں ہے اور ایسے وقت میں مسلم لیگ ن کی تمام قیادت لندن کے پُرسکون ماحول میں مقیم ہیں اور ساتھ ہی وہ مریم نواز جس نے اس قوم کو خان صاحب کی طرح اُمیدیں دلائی تھیں وہ بھی راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
یہ ہی اس ملک و قوم کی بدبختی رہی ہے کہ ان مفاد پرست سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کے حصول پر اس قوم کو قربانی کی بھینٹ چڑھایا ہے اس قوم کے لیے ان کے درد کا انداز اس رویے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج پیپلز پارٹی کی قیادت ہر حکومت مخالف تحریک پر یوٹرن لیتی رہی ہے ہر وقت جمہوریت بچائو کا راگ الاپا جاتا ہے مگر غربت مٹائوکے نام پر صرف سیاست کی جاتی ہے ن لیگ ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر ہمیں لندن بھجوائو پر عمل پیرا ہے اور یقینا کل اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے کے بعد خان صاحب بھی لمبی چھٹی پر اپنے بچوں سے ملنے لندن روانہ ہوجائیں گئے یہ ہی وہ ذاتی سیاسی مفاد کا رویہ ہے جس نے اس ملک و قوم کو آج مسائل کے دلدل میں پھنسا ڈالا ہے آج بھی اس ملک و قوم کو سیاسی خونیں بھیڑے نوچ کر کھا رہے ہیں مگر اس قوم کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔
اس وقت مہنگائی سے تنگ عوام کی آخری اُمید اپوزیشن کی جماعتیں ہیں جنہوں نے مہنگائی کے خلاف سنجیدہ آواز نہیں اُٹھائی تو یہ قوم کبھی بھی ان کو معاف نہیں کرے گی یقینا موت زندگی کا خالق و مالک اللہ ہے میاں صاحب زرداری صاحب کی بیماری اللہ کی طرف سے ہے اور وہ ہی ان کو صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا کر سکتا ہے انسانی کی موجود گی غیر موجودگی کا موت اور زندگی میں کوئی داخل نہیں۔ لہٰذا مریم بی بی ہوں یا بلاول زرداری اگر وہ اس قوم کے لیڈر ہیں اس مسائل زدہ قوم کا درد رکھتے ہیں تو مہنگائی کے سونامی کو قابو کرنے کے لیے موجود حکومت پر دبائو ڈالیں اور غریب عوام کو ان کا جائز حق دلانے میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ اور اگر یہ جرأت ہمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پھر تیماداری کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے سیاست چھوڑ کر لندن روانہ ہوجائیں۔