اسلامی تحریکیں اور امت مسلمہ کے حکمران

750

دی نیوز کراچی کے حالیہ شمارے میں امریکا کے معروف صحافیوں آدم گولڈ مین اور مارک منراٹی اور اسرائیلی صحافی رونن برگ مین کی ایک بہت تفصیلی اور ’’چشم کشا‘‘ رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کے کچھ اہم حصوں کا ترجمہ اس طرح ہے۔
’’آپ کے خیال میں عرب دُنیا کا سب سے طاقت ور حکمران کون ہے؟ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان؟ آپ کا خیال غلط ہے۔ عرب دُنیا کی طاقت ور ترین شخصیت محمد بن سلمان نہیں ہیں۔ ابوظہبی کے 58 سالہ ولی عہد محمد بن زید ہیں۔ ان کی دولت کا تخمینہ 1300 ارب ڈالر ہے۔ ان کے پاس 82 ایف 16 طیارے، 62 فرانسیسی میراج طیارے اور 30 اپاچی ہیلی کاپٹر ہیں۔ انہوں نے 2007ء میں امریکی اہلکاروں کو ایک ملاقات میں بتایا کہ مشرق وسطیٰ ’’جمہوریت‘‘ کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے امریکیوں سے کہا کہ آپ مشرق وسطیٰ کے جس مسلم ملک میں انتخابات کرائیں گے ’’Islamists‘‘ اقتدار میں آجائیں گے۔ انہوں نے امریکیوں کو باور کرایا کہ مشرق وسطیٰ کیلی فورنیا نہیں ہے۔ پرنس محمد بن زید کئی بار امریکیوں کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کو ایران اور اخوان المسلمون کے خلاف اپنا اتحادی سمجھتے ہیں۔ اسرائیل بھی ان پر اتنا اعتماد کرتا ہے کہ اس نے ولی عہد محمد بن زید کو ایف 16 طیاروں کو ’’Upgrade‘‘ کرنے کا سازوسامان مہیا کیا اور وہ جدید ترین آلات بھی مہیا کیے جو موبائل فونز کی جاسوسی میں کام آتے ہیں۔ انہوں نے 2013ء میں مصر کے صدر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کی حمایت کی۔ سعودی عرب میں پرنس محمد بن سلمان کو ’’اوپر‘‘ لانے والے بھی وہی ہیں۔ انہوں نے پرنس محمد بن سلمان کو اوپر لانے کے حوالے سے امریکیوں کو یقین دلایا کہ محمد بن سلمان بھی اسی کپڑے سے بنے ہیں جس سے وہ خود بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے امریکیوں کو بتایا کہ میرے والد نے اخوان کے ایک ممتاز رکن عزیز الدین کو میری تعلیم و تربیت کے لیے مقرر کیا تھا۔ ان کے بقول 1970ء سے 1980ء کے اوائل تک وہ ’’اخوانی‘‘ ہی تھے مگر وہ بعدازاں اخوان سے دور ہوگئے کیوں کہ ان کے بقول ان کے استاد نے ان کی ذہن سازی کی کوشش کی۔ ان کے بقول اخوان المسلمون ایک ’’ایجنڈے‘‘ پر کام کررہی ہے‘‘۔ (دی نیوز کراچی۔ 13جنوری2020ء)
مسلم دنیا ’’امکانات‘‘ کی دُنیا ہے۔ مسلمانوں کے پاس 57 آزاد ریاستیں ہیں۔ ایک ارب 60 کروڑ انسانوں کی منڈی ہے۔ تیل کے معلوم ذخائر کا 60 فی صد مسلمانوں کے پاس ہے۔ گیس کے معلوم ذخائر کا 70 فی صد مسلمانوں کے پاس ہے۔ مسلم دنیا کی 60 فی صد آبادی نو جوانوں پر مشتمل ہے۔ مگر مسلمان ہر جگہ پٹ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی عالمی طاقت کا غلام ہے۔ کوئی امریکا کا غلام ہے، کوئی برطانیہ کا غلام ہے، کوئی فرانس کا غلام ہے، کوئی روس کا غلام ہے، کوئی بیک وقت امریکا اور یورپ کا غلام ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے، مسلمانوں کا دشمن صرف امریکا، یورپ، بھارت اور اسرائیل نہیں، مسلمانوں کے حکمران بھی مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں بادشاہوں، جرنیلوں اور جمہوری حکمرانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر سب متفق ہیں۔ اس سلسلے میں اسلامی تحریکوں کی اہمیت بنیادی ہے۔
مسلم دنیا کی اسلامی تحریکیں مسلم ممالک اور پوری دنیا میں اسلام کو بالادست دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ ہر مسلم معاشرے میں اسلامی تہذیب کے مکمل اختیار کے لیے کام کررہی ہیں۔ تمام اسلامی تحریکیں اسلامی تاریخ کے بہترین زمانوں کو واپس لانے کا خواب دیکھتی ہیں۔ اسلامی تحریکیں اپنے اپنے ملک کی وفادار ہیں۔ ان میں تقوے اور علم کی سطح مسلم حکمرانوں اور عام سیاسی جماعتوں سے زیادہ بلند ہے۔ یہ تحریکیں جہاں اقتدار میں آئیں ایماندار ثابت ہوئیں۔ انہیں کبھی اپنے قومی مفادات کا سودا کرتے نہیں دیکھا گیا۔ تمام اسلامی تحریکیں جمہوری اور سیاسی جدوجہد کررہی ہیں۔ مگر اسلامی تحریکوں کی یہی ’’خوبیات‘‘ ان کے ’’عیوب‘‘ بن گئی ہیں۔ سلیم احمد نے کہا ہے۔
مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہوگا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہوجائیں گے
قدریں بدلتی ہیں تو عیب ہنر بن جاتے ہیں اور ہنر عیب کہلاتے ہیں۔ مسلم دنیا کے بادشاہ جرنیل اور نام نہاد سیاسی اور جمہوری حکمران اسلام کے غدار ہیں، اسلامی تہذیب کے دشمن ہیں، ان کا اسلامی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے مسلم ممالک کا دفاع امریکا کے یہاں گروی رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی معیشت کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے حوالے کر رکھا ہے۔ وہ مسلم دنیا میں الحاد پھیلا رہے ہیں۔ عریانی و فحاشی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کے یہی ’’عیب‘‘ مغرب کی نظر میں ان کا ’’ہنر‘‘ بن گئے ہیں۔
ذرا محمد بن زید کے مذکورہ بالا خیالات کو دیکھیے۔ وہ فرماتے ہیں کہ وہ ایران اور اخوان کے مقابلے پر اسرائیل کو اپنا اتحادی سمجھتے ہیں۔ چلیے ایران تو شیعہ ملک ہے مگر اخوان تو عرب دنیا کے مرکزی دھارے کی تحریک ہے۔ اس کا دین وہی ہے جو عرب حکمرانوں کا ہے، اس کا فقہ وہی ہے جس فقہ کو عرب حکمران درست مانتے ہیں، اس کی تاریخ وہی ہے جو عرب حکمرانوں کی تاریخ ہے، اس کا کلچر وہی ہے جو عرب حکمرانوں کا کلچر ہے، اس کی زبان وہی ہے جو عرب حکمرانوں کی زبان ہے۔ مگر اخوان کو محمد بن زید ہی نہیں تمام عرب حکمران اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اسرائیل اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، فلسطینیوں، تمام عربوں، تمام مسلمانوں کا دشمن ہے مگر محمد بن زید کو وہ اپنا ’’اتحادی‘‘ نظر آتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل بھی محمد بن زید پر ’’اعتبار‘‘ کرتا ہے اور انہیں جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے۔ گویا محمد بن زید اور اسرائیل ایک دوسرے کے ’’بچھڑے ہوئے بھائی‘‘ ہیں۔ بچھڑے ہوئے بھائی اگر ایک دوسرے پر ’’اعتبار‘‘ نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
خدا کا شکر ہے محمد بن زید نے خود یہ تسلیم کرلیا کہ مسلم دنیا کی اسلامی تحریکیں ’’مقبول عوام‘‘ ہیں۔ انہوں نے خود کہا کہ اگر مسلم دنیا بالخصوص عرب ممالک میں انتخابات ہوجائیں تو ہر جگہ ’’اسلام پسند‘‘ اقتدار میں آجائیں گے۔ اس لیے وہ امریکا اور یورپ کو سمجھاتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ ابھی جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ’’جمہوریت پسند مغرب‘‘ محمد بن زید سے پوری طرح متفق ہے۔ چناں چہ ہم نے دیکھا کہ الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور الجزائر کے بدمعاش جرنیلوں نے مغرب کے اشارے پر بغاوت کردی اور اسلامی فرنٹ کی کامیابی کو سبوتاژ کردیا۔ شیطان صفت امریکا اور یورپ جمہوریت کے اس قتل عام پر خاموش رہے۔ فلسطین میں حماس نے بے مثال انتخابی کامیابی حاصل کی مگر عرب حکمرانوں اور مغرب نے حماس کی جمہوری حکومت کو تسلیم ہی نہ کیا۔ مصر میں اخوان کے رہنما مرسی صدر بن گئے مگر مصر کے بدمعاش جنرل سیسی نے صدر مرسی کا تختہ الٹ دیا۔ یہ ایک فوجی بغاوت تھی مگر جمہوریت پرست امریکا بہادر نے اسے فوجی بغاوت تک قرار نہ دیا۔ اب معلوم ہوا کہ جنرل سیسی کی فوجی بغاوت کی پشت پر محمد بن زید بھی موجود تھے۔ اسی لیے عرب ممالک جنرل سیسی کے برسرِاقتدار آتے ہی 13 ارب ڈالر لے کر ان کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم مصر کی معیشت کو ڈوبنے نہیں دیں گے۔ ترکی میں بھی ترکی کے بدمعاش جرنیلوں نے طیب اردوان کے خلاف سازش کی مگر ترک عوام نے سڑکوں پر نکل کر اور جانیں دے کر اس سازش کو ناکام بنادیا۔ محمد بن زید نے خود اعتراف کیا ہے کہ جس عرب ملک میں انتخابات ہوں گے اسلام پرست اقتدار میں آجائیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ محمد بن زید نے تسلیم کرلیا ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران خواہ بادشاہ ہوں یا جرنیل عوام میں مقبول نہیں ہیں۔ عوام میں مقبول ہیں تو مسلم دنیا بالخصوص عرب دنیا کی اسلامی تحریکیں۔ عرب دنیا کے عوام میں اگر بادشاہ واقعتا مقبول ہوتے تو وہ اپنے اپنے ملکوں میں ہر سال انتخابات کراتے اور خود کو جمہوری رہنما کی حیثیت سے اقتدار میں لاتے۔
شاہنواز فاروقی
اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب اور اس کے آلہ کار بادشاہوں، جرنیلوں اور نام نہاد جمہوری رہنمائوں نے ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کا حال ہی نہیں مستقبل بھی اغوا کیا ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ مسلم دنیا کی بادشاہتیں بھی جعلی ہیں۔ مسلم دنیا کی فوجی آمریتیں بھی جعلی ہیں اور مسلم دنیا کی جمہوریتیں بھی جعلی ہیں۔ اس لیے کہ ان تینوں صورتوں میں مسلم امت کے اصل نمائندے مسلم دنیا کی قیادت نہیں کررہے۔ مسلم دنیا کی اصل نمائندہ کل بھی اسلامی تحریکیں تھیں، آج بھی اسلامی تحریکیں ہیں اور مستقبل میں بھی اسلامی تحریکیں ہوں گی۔
مسلم دنیا کے کئی ممالک میں اسلامی تحریکیں ابتلا کا شکار ہیں اور بعض لوگ ان کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ مسلم دنیا کی اسلامی تحریکوں کا اب شاید کوئی مستقبل نہیں۔ مسلمان کی اصل اسلام سے منسلک ہونا اور باطل کی مزاحمت کرنا ہے۔ جب تک اسلامی تحریکیں اسلام کے انقلابی پیغام سے منسلک رہیں گی اور باطل کی مزاحمت کرتی رہیں گی انہیں کوئی قوت فنا نہیں کرسکے گی۔ مسلم دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بسا اوقات مسلمانوں کی کوئی نمائندہ طاقت شکست کھا جاتی ہے مگر اس کے باوجود مزاحمت کی روح باقی رہ جاتی ہے۔ سراج الدولہ کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست ہوگئی۔ ٹیپو سلطان کو شکست ہوگی۔ 1857ء کی تحریک آزادی ناکام ہوگئی۔ سید احمد شہید کی تحریک کامیاب نہ ہوسکی مگر ان تمام کی مزاحمتی قوت نے مسلمانوں میں مزاحمت کی روح کو بیدار رکھا۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو آج اسلامی تحریکیں امت کے حال اور مستقبل کے حوالے سے اہم نہ ہوتیں۔ ایسا نہ ہوتا تو افغانستان میں سوویت یونین اور امریکا کو شکست نہ ہوتی۔ اسلامی تحریکیں مزاحمت کرتی ہوئی فنا بھی ہوگئیں تو مستقبل میں کوئی اور اُٹھے گا اور ان کے ورثے کی نمائندگی کرے گا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ہم روح سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لو