چین نہیں آئی ایم ایف پر انحصار کم کریں

426

یہ کہنا تو حقائق کے منافی ہو گا کہ آئی ایم ایف کھل کر سامنے آ گیا۔ وہ تو پہلے ہی کھلا ہوا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو پتا نہیں چلتا یا وہ پھر اس کے تلوے چاٹنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ بات بھی صاف ہو گئی ہے کہ آئی ایم ایف بھی امریکا کے اشاروں پر چلتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ چین پر تجارت میں انحصار کم کرے اور دیگر ممالک سے آزاد تجارت کے معاہدے کرے۔ آئی ایم ایف کا دبائو ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے۔ پی ٹی آئی حکومت اس سے خوفزدہ ہے۔ اسے یہ خوف نہیں کہ ملک کا کیا بنے گا بلکہ اسے عوامی اور رد عمل اور عوامی غصے کا خوف ہے چنانچہ آئی ایم ایف سے ڈیڑھ سال کی مہلت مانگی جا رہی ہے اور آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ اگر قیمتیں نہیں بڑھائیں تو بھاری خسارہ ہو گا۔ اچھا تو متبادل پلان لا کر دو۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس تو پلان اے نہیں ہوتا وہ پلان بی کہاں سے دیں گے یقینا اس کے لیے بھی آئی ایم ایف کے پائوں پکڑے جائیں گے۔ یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ پاکستان کو پی ٹی آئی چلا رہی ہے نہ پاک فوج یا ایجنسیاں۔ بلکہ اب تو آئی ایم ایف براہِ راست ملک چلا رہا ہے۔ اگر اشیا کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کے لیے بھی آئی ایم ایف احکامات دے تو مشیر خزانہ، اور وزرائے خزانہ و تجارت ایف بی آر چیئرمین وغیرہ کی کیا ضرورت۔ سال بھر میں ان پر کروڑوں روپے تو خرچ ہوتے ہوں گے یہ پیسے ہی بچا لیے جائیں اور آئی ایم ایف کے حکم پر عمل کیا جائے۔ آئی ایم ایف کا یہ حکم کہ چین پر انحصار کم کیا جائے کسی آزاد ملک کے شایانِ شان نہیں بلکہ اس کی توہین ہے۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ کسی ایک ملک پر حد سے زیادہ انحصار کبھی ملک کی معیشت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ لیکن آئی ایم ایف نے امریکا پر مکمل انحصار کرنے پر کبھی کسی ملک کو تنبیہ کی ہو تو اس کے ریزیڈنٹ چیف سے لوگ یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ وہ کون سا ملک ہے اور کب اور کس کو یہ کہا گیا کہ امریکا پر انحصار نہ کیا جائے۔ یہ کام بھی ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب پاکستان چین کے ساتھ 60 ارب ڈالر سے زیادہ کے منصوبوں میں پوری طرح شریک ہے۔ ان منصوبوں سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا اور کیا نقصان وہ الگ معاملہ ہے لیکن کسی بھی طویل مدتی منصوبے کے آغاز کے بعد اس کے عین درمیان ہی ایسے مطالبات واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ امریکا کے اشارے پر آئی ایم ایف پاکستان کا چین پر انحصار ختم یا کم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے دوسرے ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں پر بھی زور دیا ہے تو پاکستان نے ملائیشیا سے حال ہی میں اور اب ترکی کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی جانب پیشرفت کی ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان، ایران، ترکی، ملائیشیا وغیرہ کے ساتھ تجارت بھی پسند نہیں آئے گی۔ آئی ایم ایف کو کیا پسند ہے اور کیا نا پسند اس سے قطع نظر یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ اسلامی ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم خطرے کے نشان کے قریب ہو جائے تو مغرب کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ یورپ نے بھی یونین کا تجربہ کر لیا اسے اب برطانیہ کے نکلنے کے بعد نئے مسائل کا سامنا ہو گا لیکن یورپ کا مسئلہ پاکستان اور اسلامی ملکوں کی طرح کا نہیں ہے بلکہ یورپ کا ہر ملک اپنے قومی مفاد کو جانتا بھی ہے اور اس کا تحفظ بھی خوب کرتا ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ حکمران ذاتی مفاد کو قومی مفاد سمجھتے اور قرار دیتے ہیں۔ ان میں یہ جرات بھی نہیں ہوتی کہ عالمی اداروں کو ان کے گھروں کی راہ دکھا دیں۔ یہاں تو وہی ہو رہا ہے جو آئی ایم ایف کا حکم ہو۔ اب تو پاکستانی حکام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آئی ایم ایف کس کے اشارے پر کام کرتا ہے اور پاکستانی حکمران کس کے اشارے پر۔ یہ پہلو تو اپنی جگہ ہے لیکن پاکستانی معیشت کو سنبھالنے اور حکومت چلانے میں جو خرابیاں ہو رہی ہیں وہ اسی وقت درست ہو سکیں گی جب پاکستانی حکمران آئی ایم ایف پر انحصار کم کریں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ چین یا امریکا پر انحصار کم کرنے کے بجائے پہلے پاکستان آئی ایم ایف پر انحصار کم کرے۔ جس روز آئی ایم ایف پر انحصار کم کرنا شروع کیا گیا اسی روز پاکستان کی ترقی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ سارا معاملہ انحصار کا ہے، حکمران اقتدار میں آنے کے لیے ووٹ اور عوام کے بجائے کسی اور پر انحصار کرتے ہیں۔ پھر وہ لوگ اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لیے امریکا پر انحصار بڑھاتے ہیں اور امریکا ان کو مایوس نہیں کرتا ان کے لیے ملک کے حالات ایسے بنائے جاتے ہیں کہ سب ان پر انحصار کرنے لگیں۔ اور عوام کا یہ حال ہے کہ وہ میڈیا پر انحصار کرتے ہیں انہیں جو بتایا جائے وہ اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ چنانچہ کہیں بھی خود انحصاری نہیں ہے۔ عوام اپنے فیصلوں پر انحصار کریں تو سیاستدان بھی ان پر انحصار کریں گے پھر اقتدار میں صحیح نمائندے آئیں گے۔ لیکن یہ چکر رکے گا تو انحصار کا کھیل ختم ہو گا۔ایک بات اور عمران خان سمجھنے کی کوشش کریں اور وہ ہے افہام و تفہیم۔ اگر وہ سیاست میں یہ کام نہیں کر سکتے تو اتنا تو کریں کہ سیاسی مخالفین کو طیش دلانے کی کوشش نہ کریں۔ ان کے اپنے اتحادی چودھری پرویز الٰہی نے یہ مشورہ دیاتو عمران خان بپھر گئے اور یہ شعر پڑھ دیا جس کا مصرع ہے ’’میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے‘‘۔ اب وہ اقتدار مین آ ہی گئے ہیں تو چین، امریکا یا آئی ایم ایف پر انحصار بڑھانے کے بجائے قوم پر انحصار کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اسمبلیوں میں جو بیٹھے ہیں وہ بھی عوام کے نمائندے ہیں، عوام نے ان پر بھروسا کیا ہے اور ان کی مجموعی تعداد تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔