آغازِ محبت

386

مظہر اقبال
یہ سن سولہ سو کے وسط کے زمانے کا وقعہ ہے امریکی ریاست کیلی فورنیا میں دو گھڑ سوار پہنچتے ہیں۔ ایک ڈھابہ ہے جسے ایک خاتون چلا رہی ہوتی ہیں۔ دونوں گھڑ سوار اس ڈھابے میں کچھ کھانے کی غرض سے داخل ہو تے ہیں۔ ایک نوجوان کی کسی بات پر تلخ کلاہی ہوتی ہے اور پھر لڑائی شروع ہو جاتی ہے، مسافر نوجوان مخالف گروپ کے ساتھ مار پیٹ کر رہے ہوتے ہیں کہ اچانک ایک لمبی سی لوہے کی نالی نظر آتی ہے جس کے دوسرے سِرے پر تھانیدار کھڑا ہوتا ہے، دونوں جوانوں کو حوالات پہنچا دیا جاتا ہے۔
رات ہو چکی ہے، ایک جوان جو مجرمانہ ذہینت کا حامل ہے اپنے دوست سے کہتا ہے موقع اچھا ہے پولیس والا سو رہا ہے، یہاں سے بھاگ لیتے ہیں تاہم اس کا دوست جواب دیتا ہے کہ میں مزید کسی ایڈوینچر کا متحمل نہیں ہو سکتا، ایک جوان سوتے ہوئے حولدار کی میز سے چابیاں اٹھاتا ہے اور بھاگ نکلتا ہے۔ صبح وہی تھانیدار عجب منظر دیکھتا ہے، حوالات کا دروازہ کھلا ہوا ہے ایک نوجوان غائب ہے جبکہ دوسرا لیٹا ہوا ہے۔ تھانیدار پر سب حقیقت اشکار ہو جاتی ہے، تھانیدار اس نوجوان کو بتاتا ہے کہ اس ڈھابے میں توڑ پھوڑ سے جو نقصان ہوا ہے وہ تمہیں ادا کرنا ہے۔ اس تھانیدار پر نوجوان مسافر کی حقیقت عیاں ہوجاتی ہے۔ نوجوان مسافر کے پاس جرمانہ ادا کرنے کی رقم نہیں ہے اسی شام تھانیدار شہر سے ذرا دور ایک گھر پہنچتا ہے وہاں دو یتیم لڑکیاں رہتی ہیں۔ ایک بالغ اور جبکہ دوسری ابھی بچی ہے، تھانیدار اسے یقین دلاتا ہے کہ ایک مسافر نوجوان تمہارے بہت سے مسئلے مسائل حل کرسکتا ہے، تمہارے کھیتوں کی دیکھ بھال کر سکتا ہے، جانوروں کا خیال رکھ سکتا ہے اور گھر کی مرمت میں بھی ہاتھ بٹا سکتا ہے۔ اگلے ہی دن تھانیدار اس نوجوان کو وہاں لے جاتا ہے نوجوان محنت سے کام کرتا ہے ہر ہفتے جب اسے مزدوری ملتی ہے تو وہ باقائدگی سے رقم ڈھابے کی مالکن کو پہنچا دیتا ہے، یوں تھوڑا تھوڑا کر کے وہ اپنا سارا جرمانہ چکتا کر دیتا ہے۔ نوجوان چوں کہ ایماندار ہوتا ہے محنت اور لگن سے کام کرتا ہے یوں فارم ہائوس کی مالکن خوشحال ہو جاتی ہے۔ مالکن اس نوجوان کی ایمانداری سے متاثر ہو کر اسے نکاح کی دعوت دیتی ہے نوجوان اس دعوت کو قبول کر لیتا ہے۔
اس سارے منظر نامے میں ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو ہمیں کہیں عدالت نظر آئی، نہ کمشنر اور نہ ہی کوئی مجسٹریٹ وہ شخص جو شروع ہی سے اس صورتحال کو بھانپ لیتا ہے وہی ہی قانون کا رکھوالہ ہے۔ آج دنیا کے بہت سے معاشرے عہدوں اور اداروں میں جکڑ کر رہ گئے ہیں۔ اپنی اپنی منطق کے مطابق لوگوں نے مسائل کے حل کے لیے قانون بنانا شروع کر دیے بعد میں پتا چلا کہ کچھ قوانین معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن گئے۔ دین فطرت اپنے اندر تمام مسائل کا حل لیے ہوئے ہیں۔ چودہ سو سال پہلے نبی آخر الزماں سیدنا محمدؐ اس مفلس آدمی کے سامان کی نیلامی کروا رہے تھے، اپنے ہاتھ سے اس کی کلہاڑی میں دستہ لگا رہے تھے تاکہ یہ شخص بھیک مانگنے سے بچ جائے۔ دراصل نیلامی کا یہ طریقہ ایک ترغیب تھی نیلامی کا ماحول اور مٹی میں پڑے ہوئے شخص کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا آپ ؐ کی تربیت کی معراج ہے۔
مہاجرین بے سروسامانی کے عالم میں ہیں تو آپؐ نے بھائی چارے کی عظیم الشان مثال قائم کردی۔ کوئی کسی کو اپنی آدھی جائداد دے رہا ہے تو کوئی کسی سے کہہ رہا ہے کہ میری دو بیویاں ہیں تمہیں جو پسند آئے بتا دینا میں اس سے الگ ہو جا ؤں گا۔ آپؐ نے کبھی اپنے اصحابؓ سے درخواست نہیں کی کہ چندہ جمع کر کے عدالتیں بنائی جائیں مسجد ہی میں نماز کے بعد فیصلے کیے جاتے تھے نہ وکیل کی فیس کا جھنجھٹ اور نہ ہی عدالتی فیس۔
آپؐ کا خاندانی رتبہ کسی سے ڈھکہ چھپا نہیں، جب بیٹی کی رخصتی آپؐ نے اپنے اصحابؓ کی ایسی تربیت کی کوئی کنواں خرید رہا ہے تاکہ لوگوں کو آسانی ہو کوئی کسی لاچار بڑھیا کے گھر کی صفائی کر رہا ہے ان سب کے اعمال کی ابتدا محبت ہے۔ آپؐ اپنے اُوپر کچرا پھینکنے پر غم و غصے کا نہیں بلکہ محبت اور شفقت کا اظہار کرتے ہیں۔ تیمارداری کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ مناظر دیکھ کر جاہلوں اور ان کے سرداروں کے دل موم ہو جاتے ہیں ورنہ اختیار تو عرب آپ کو بہت پہلے دے رہے تھے۔ آپؐ دلوں میں اللہ کی محبت پیدا کرنے آئے ہیں اقتدار و اختیار کے لیے نہیں۔ آپؐ کی صاحبزادی کے نکاح کا وقت آیا رات کے اندھیرے میں صرف ام ایمنؓ سیدہ فاطمہؓ کو علی مرتضیٰ کے گھر چھوڑ آتی ہیں۔ یہ دنیا کی عظیم سادگی ہے امت کو سبق دیا جا رہا تھا کہ مسائل کو سادگی کے ساتھ حل کرنا ہے۔ مسائل کا انبار نہیں لگانا ہے۔ اس سادگی اور تمام اعمال کی جان صرف ایک چیز ہے وہ ہے محبت۔ اگر اللہ کی محبت میں کوئی عمل ہوگا تو اس کے اثرات دوررس ہوں گے آج حالات یہ ہیں کہ خود ایک دوسرے سے نالاں ہیں۔ اس موقع پر مولانا مودودیؒ کا قول بہت وزن رکھتا ہے کہ تم کون سے انقلاب کے داعی ہو کہ تمہیں اپنے ساتھی کی خبر نہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ فلاح کے لیے تنظیمیں بن رہی ہیں، سرکاری سطح پر ادارے دھڑا دھڑ بن رہے ہیں۔ لوگ مملکت سے مطمئن نہیں۔ تعلیم، صحت اور امن وامان کہیں نظر نہیں آتا۔ گھروں میں کام کرنے والی خاتون کی تنخواہ آٹھ ہزار جبکہ بجلی کا بل پانچ ہزار، بچے کی اسکول کی فیس دو ہزار اور مکان کا کرایہ سات ہزار کون سے حکمران اور کہاں کی جمہوریت۔ آج ضرورت ہے محبت اور خلوص نیت کی۔ اگر اللہ اور نبیؐ کی محبت میں معاملات کو نمٹا لیا جائے تو بہتر ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب لوگ ہجرت کرتے ہوئے یہ نیت باندھ لیں گے کہ تم سرحدیں رکھ لو اور ہم کلمہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔