ریڈ انڈین سرداروں کی تقریریں پہلی قسط

752

تقریر ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ تقریر انسانی جذبات اور خیالات میں تلاطم برپا کرکے انسانوں کے ہجوم کو ایک رخ عطا کردیتی ہے۔ بعض مورخین اور دانشوروں نے انسانی تاریخ کی معرکہ آرا تقاریر کو یکجا کیا ہے۔ پچھلے دنوں ریڈ انڈینز (امریکا کے اصلی اور قدیم باشندے) سرداروں کی کچھ تقاریر پڑھیں تو احساس ہوا ہستی کی حیرت افزا وسعت کے باوجود ظالم اور مظلوم کا رشتہ آج بھی وہی ہے جو ان تقاریر کے اندرون پوشیدہ ہے۔
جب کولمبس امریکا پہنچا تو اس مغربی نصف کرہ ارض پر بعض روایات کے مطابق 80لاکھ، بعض کے مطابق سات کروڑ انڈین آباد تھے۔ مورخین کی اکثریت دو کروڑ پر متفق ہے۔ ریڈ انڈینز کے بارے میں کولمبس اپنے روزنامچے میں لکھتا ہے: ’’وہ ہمارے لیے رنگ برنگے پرندے، روئی کے گٹھے، کمانیں اور دوسری اشیالے کر آئے اور بدلے میں ہم سے بیلوں کی گردن میں ڈالنے کی گھنٹیاں اور شیشے کی لڑیاں لے گئے۔ یہ لوگ، سادہ جفا کش اور بے ضرر نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ تو ہتھیاروں کے استعمال کا علم ہے نہ ہی کسی ہتھیار سے مسلح ہوتے ہیں۔ جب میں نے انہیں اپنی تلوار دکھائی تو بیش تر نے اپنی انگلیوں اور ہاتھوں کو تیز دھار تلوار سے زخمی کرلیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ بہترین خدمت گار اور بہترین غلام ثابت ہوںگے۔ ہم صرف پچاس لوگوں کی مدد سے تمام آبادی پر غلبہ پاسکتے ہیں‘‘۔ ایک اور جگہ کولمبس لکھتا ہے: ’’ریڈ انڈین اپنے دفاع کے قابل نہیں۔ ان کے رسم ورواج میں ذاتی ملکیت کا تصور ناپید ہے۔ ان سے کچھ بھی طلب کیا جائے وہ دینے سے انکار نہیں کرتے۔ زمین اور وسائل کسی کی ملکیت نہیں بلکہ مشترکہ استعمال اور ملکیت کا قانون رائج ہے۔ اگر بادشاہ اور ملکہ میری مدد کریں تو اتنا سونا لادوں کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو اور اتنے غلام لادوں کہ جتنوں کا حکم دیا جائے‘‘۔
ملکہ اور بادشاہ کو راضی کرنے کے بعد کولمبس 25دسمبر 1493 کو شمالی امریکا کے سفر پر روانہ ہوا تو اس کی کمان میں 17جہاز تھے۔ جن میں 1200 افراد بھرے ہوئے تھے۔ ایک سے بڑھ کر جنگجو، تلوار باز، تجربہ کار تیرانداز۔ اکثریت خطرناک جرائم پیشہ افراد کی تھی۔ اس قافلے اور اس کے ساتھ جانے والے سامان کی کثرت پر نظر کی جاتی تو آسانی سے سمجھ میں آجاتا تھا کہ یہ لوگ قبضے، لوٹ مار اور مستقل رہائش کے لیے جارہے تھے۔ جب کولمبس امریکا اس مقام پر پہنچا جہاں وہ پہلی مرتبہ گیا تھا تو اسے مقامی لوگ نظر نہ آئے۔ ریڈ انڈینز کے رہائشی جھونپڑے جلے ہوئے تھے اور ان کی کٹی پھٹی لاشیں جابجا بکھری ہوئی تھیں۔ یہ ریڈ انڈینز کولمبس کے آدمیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے جن کو کولمبس آبادکاری کی غرض سے چھوڑ گیا تھا۔ قتل وغارت کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو صدیوں تک چلتا گیا۔ 1494 سے 1508 تک پندرہ سال کے عرصے میں صرف جزائر غرب الہند میں چالیس لاکھ سے زیادہ ریڈ انڈینز قتل کیے گئے۔ باقی مقبوضہ علاقوں کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ مشہور مورخ ہاورڈزین لکھتا ہے:
’’بہاماس کے ساحل پر جب کولمبس کے جہاز لنگر انداز ہوئے تو دیکھتے ہی دیکھتے ریڈ انڈینز کے بڑے قبائل کے افراد ناپید ہوگئے۔ وہ پا بہ زنجیر ہوئے اور غلام بناکر اسپین روانہ کردیے گئے یا قتل ہوگئے۔ ہسپانوی آبادکاروں کے ہاتھوں صرف بہاماس اور ہیٹی کے جزائر کے ایک لاکھ ریڈ انڈینز قتل ہوئے۔ کولمبس کے لشکری ایک کے بعد ایک جزیرے میں تلواریں لہراتے ہوئے جاتے، عورتوں کی آبروریزی کرتے، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرتے اور جوانوں کو زنجیریں پہنا کر ساتھ لے جاتے۔ جو مزاحمت کرتا قتل کردیا جاتا‘‘۔
صدیوں سے امن وامان، سکون اور مل جل کر رہنے والے ریڈ انڈینز کے لیے یہ صورتحال غیر متوقع تھی۔ انہیں سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ اس ناگہانی آفت سے کیسے نمٹا جائے۔ جن لوگوں کے پاس جانوروں کا شکار کرنے کے لیے ڈھنگ کے ہتھیار نہ تھے وہ ان قاتلوں، جنگجوئوں اور جلادوں کا کیسے مقابلہ کرتے۔ کولمبس کے ساتھ جانے والا ایک عیسائی مبلغ لاکس کیسس لکھتا ہے:
’’ہسپانوی آبادکاروں نے اجتماعی پھانسیوں کا طریقہ کار جاری کیا۔ بچوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو اپنے کتوں کے سامنے بطور خوراک ڈال دیا جاتا تھا۔ عورتوں کی اکثریت اس وقت تک جنسی تشددکا شکار رہتی جب تک مر نہ جاتیں۔ گھروں کو آگ لگادی جاتی اور ریوڑ کی صورت میں بھاگتے غیر مسلح اور ناقابل دفاع لوگوں کا تیز رفتار گھوڑوں سے تعاقب کیا جاتا اور انہیں تیر اندازی کی مشق کے لیے استعمال کیا جاتا۔ یوں چند ہی گھنٹوں میں شہر کا شہر زندگی سے عاری ہوجاتا اور ہسپانوی ان کی زمینوں پر قبضہ کرتے چلے گئے‘‘۔
ریڈ انڈین ہزاروں سال قبل مسیح سے امریکا میں متمدن اور پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا اصل مرکز اوکلا ہاما تھا جہاں آج صرف چند ہزار ریڈ انڈینز باقی بچے ہیں۔ یورپ کے مہذب مداخلت کاروں کا نعرہ تھا کہ مغربی تہذیب کے لیے ریڈ انڈینز قبائل کا خاتمہ ضروری ہے۔ جارج واشنگٹن نے اپنے جنرل کو ہدایت دی تھی کہ ارکو قبیلے کی تمام باقیات کے خاتمے تک امن کا کوئی نغمہ سننے کی ضرورت نہیں۔ تمام سرخ بھیڑیوں کو ختم کردو۔ امریکا کے عظیم ترین جمہوریت پسند صدر تھیوڈو روز ویلٹ کا کہنا تھا کہ تمام جنگوں میں سب سے عظیم جنگ وہ ہے جو ریڈ انڈین وحشیوں کے خلاف لڑی گئی۔ 1860 سے 1884 تک 24سال کی مدت میں صرف کیلی فورنیا میں ریڈ انڈین کی آبادی 51لاکھ سے کم ہوکر صرف 13ہزار رہ گئی تھی۔ قانوناً ریڈ انڈین کو قتل کرنے پر کوئی سزا نہیں تھی۔ ریڈ انڈین جہاں نظر آتے گولی سے اڑادیے جاتے یا زنجیروں میں جکڑ کر غلام بنادیے جاتے۔ کروڑوں ریڈ انڈین کو قتل کرنے کے علاوہ ان میں بیماریاں پھیلانے کے لیے چیچک زدہ کمبل تقسیم کیے گئے۔
اس طویل تمہید کے بعد آئیے ریڈ انڈینز سرداروں کی تقاریر ملاحظہ فرمائیں۔ ان تقریروں میں آپ کو چار سو تباہی وبربادی سے لڑتے نہتے، بے بس اور مظلوم انسان نظر آئیں گے۔ مرگ وہلاکت کی ویرانیوں میں سفید فام، وحشی اور سیاہ کار درندوں سے پناہ کی تلاش میں سرگرداں زندگی نظر آئے گی۔
٭ ایک دن زمین روئے گی۔ وہ رو رو کر اپنی زندگی کی بھیک مانگے گی۔ وہ خون کے آنسو روئے گی۔ تب تمہارے سامنے دو ہی راستے بچیں گے، تم اس کی مدد کروگے یا اسے مرتا چھوڑ دوگے اور اس کے مرتے ہی تم بھی ختم ہوجائوگے (جان ہالو ہارن، اوگلالا قبیلہ 1932)
٭ جسے تم پیار سے حاصل کرسکتے ہو وہ تم جنگ کرکے کیوں حاصل کرنا چاہتے ہو؟ تم آخر کیوں ہماری بربادی کے درپے ہو؟ ہم تو تمہیں خوراک فراہم کرتے ہیں۔ جنگ سے تمہیں آخر حاصل ہی کیا ہوگا؟ ہم غیر مسلح ہیں اور تمہیں جو چاہو دینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ تم دوست بن کر آئو۔ لے جائو اپنی بندوقیں اور تلواریں۔ تمہارے سارے حسد کی جڑ یہیں ہیں۔ ورنہ تم خود بھی اسی طرح مارے جائو گے (پوہاٹان، جان اسمتھ سے منقول)
٭ وہ جو جی میں آئے کرتے ہیں۔ اپنے سے مختلف رنگ کے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں حالانکہ وہ بھی اسی روح عظیم کی مخلوق ہیں جس نے خود انہیں پیدا کیا ہے۔ جسے وہ غلامی کی زنجیر نہ پہنا سکیں اسے مار ڈالتے ہیں۔ ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں۔ یہ لوگ ہم سرخ ہندیوں کی طرح نہیں جو صرف جنگ کے دوران دشمنی کرتے ہوں اور امن کے زمانے میں دوست بن جاتے ہوں۔ کسی ہندی سے بات کرتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ پکڑکر اسے دوست اور بھائی کہہ کر پکاریں گے لیکن ساتھ ہی اسی لمحے اسے مار بھی ڈالیں گے۔ (جاری ہے)