ریڈ انڈین سرداروں کی تقریریں

333

 ریڈ انڈین سرداروں کی کچھ اور تقاریر ملا حظہ کیجیے:
٭ ہمارے آباء واجداد، ڈیلا وئیر کہاں گئے؟ ہم امید لگائے بیٹھے تھے کہ گورے پہاڑ عبور کرنا پسند نہ کریں گے اور ہم ان سے محفوظ رہیں گے۔ اب یہ امید ختم ہوچکی ہے۔ وہ لوگ پہاڑوں کو عبور کرکے چیرو کی زمینوں پر قابض ہوچکے ہیں۔ بالآخر ہمارے اور ہمارے آباء واجداد کے تصرف میں رہنے والے سارے ملک کا مطالبہ کیا جائے گا اور اصل باشندے جو کبھی اس قدر عظیم اور ناقابل مزاحمت ہوا کرتے تھے کہیں دور دراز کے جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ (اسی پر بس نہیں ہوگا) پھر ایک دن انہیں ان ہی لالچ کے مارے مہمانوں کے جھنڈے پھر دکھائی دیں گے۔ یہ (مجوزہ) معاہدے بوڑھوں کے لیے تو ٹھیک ہیںجو نہ شکار کے قابل ہیں نہ جنگ کے۔ میرے پاس میرے نوجوان سپاہی موجود ہیں۔ ہم اپنی زمینیں واپس لیں گے۔ میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا تھا (چیروکی قبیلے کا سردار 1786)
٭ میں گورنر ہیریسن سے یہ نہیں کہوں گا کہ معاہدے کو چاک کردے ہاں یہ ضرور کہوں گا بھائی تم اپنے ملک واپس جاسکتے ہو۔ ہم ہندیوں کو متحد رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں اپنی زمینیں سب کی مشترکہ ملکیت سمجھنے دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ تم انہیں اس سے روکنا چاہتے ہو۔ تم قبائل کو الگ الگ کرکے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہو۔ ہندی قبائل کے درمیان یہ امتیاز قائم کرکے اور ہر قبیلے کو ایک خاص قطعہ زمین دے کرایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہو۔ تم انہیں مسلسل کھدیڑتے جارہے ہو۔ بالآخر تم انہیں جھیل تک سرکا دو گے جہاں نہ وہ رہ سکیں گے نہ کچھ کام کرسکیں گے۔ اس زمین کو فروخت کرنے اور اس کے بدلے چیزیں دینے والے چند لوگ ہی تھے لیکن آئندہ ایسا کرنے والوں کو ہم ضرور سزا دیں گے۔ اور اگر تم لوگ زمین خریدنے سے باز نہ آئے تو قبائل کے درمیان جنگ بھڑک اٹھے گی اور میں نہیں کہہ سکتا اس کے نتائج گوروں کے لیے کیا نکلیں گے۔
بھائی میری خواہش ہے کہ تم سرخ ہندیوں پر رحم کھائو اور میری درخواست پر عمل کرو۔ اگر تم نے زمین پر قبضہ نہ چھوڑا اور ہماری موجودہ آبادی کی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کی تو بہت سے مسائل جنم لیں گے۔ اس برائی کو روکنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ تمام سرخ ہندی اکٹھے ہو کر زمین پر مشترکہ حق کا دعویٰ کریں۔ کسی قبیلے کو زمین فروخت کرنے کا حق نہیں۔ جب ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے ہاتھ بھی زمین فروخت نہیں کرسکتا تو اجنبیوں کے ہاتھ کیسے فروخت کرسکتا ہے۔ تم کہتے ہو ہم زمین بیچ دیں کیا خیال ہے فضا، سمندر بھی نہ فروخت کردیے جائیں؟ کیا یہ سب روح عظیم نے اپنے بچوں کے استعمال کی خاطر پیدا نہیں کیا؟ ہم گوروں پر کیوں کر اعتماد کرسکتے ہیں؟
آج پیکو (قبیلے کے لوگ) کہاں ہیں؟ ناراگا نسیت، موہیکان، پو کانیت اور ہماری قوم کے دیگر طاقتور قبائل کیا ہوئے؟ یہ سب گوروں کے حرص اور ظلم کے باعث صفحہ ہستی سے بالکل اس طرح مٹ گئے جیسے گرما کے سورج کے سامنے برف پگھل جاتی ہے۔ کیا اب اپنی نسل کے شایان شان جدوجہد کیے بغیر مٹ جانے کی باری ہماری ہے؟ کیا ہم روح عظیم کی عطا کردہ زمین اور گھروں سے یوں ہی بغیر کسی مزاحمت کے دست بردار ہوجائیں گے؟ پرکھوں کی قبریں اور ہروہ شے جسے ہم قابل قدر اور مقدس گردانتے آئے ہیں ان کے حوالے کردیں گے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ سب میرے ساتھ یک آواز ہوکر کہیں گے’’کبھی نہیں کبھی نہیں چو کتا اور چکا سکا قبیلے والو! امن کے دھوکے اور جھوٹی امیدوں سے باہر نکل آئو۔ جاگ جائو۔ کیا ہمارے آباء واجداد کی قبروں پر ہل چلاکر انہیں کھیتوں میں تبدیل کردیا جائے گا؟‘‘ (زمینوں کی خرید وفروخت پر1810میں کی جانے والی تیکو مسیہ کی تقریر)
٭ بھائیو ہم نے اپنے عظیم باپ (امریکی صدر) کی گفتگو سنی، نہایت رحمدلی کی گفتگو تھی۔ وہ اپنے سرخ فام بچوں سے بھی پیار جتاتا ہے۔ گورا جب پہلے پہل وسیع وعریض پانیوں کے پار سے یہاں پہنچا تو وہ نہایت منحنی اور کمزور ساتھا۔ اپنے بڑے سے جہاز پر مسلسل بیٹھے رہنے کے باعث اس کی ٹانگیں شل ہوچکی تھیں۔ وہ صرف چپہ بھر زمین کی بھیک مانگتا تھا۔ سرخ فام ہندیوں نے اسے زمین دے دی اور اسے آرام پہنچانے کے لیے الائو روشن کیے۔ ہندیوں کی آگ سے خود کو گرما لینے اور ان کے دلیے سے اپنا پیٹ بھر لینے کے بعد وہ ایک دم بہت قدآور ہوگیا۔ نہ تو یہاں پہاڑی چوٹیاں اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں نہ میدان اور نہ ہی وادیاں۔ مشرق اور مغرب کے سمندر اس کی دسترس میں آگئے۔ پھر وہ ہمارا عظیم باپ بن گیا۔ اسے اپنے سرخ بچوں سے پیار تھا۔ اس لیے وہ ہم سے کہنے لگا ’’تم لوگ پیچھے کی طرف چلے جائو اور وہاں اپنے لیے نیا ٹھکانہ ڈھونڈو کہیں غلطی سے میں تمہیں روند نہ ڈالوں۔ ایک پائوں سے اس نے سرخ فام ہندیوں کو اوکونی (جنوبی کیرو لینا) سے پرے کھدیڑا اور دوسرے پائوں سے اس نے ہمارے پرکھوں کی قبریں روند ڈالیں۔ ایک مرتبہ وہ یوں گویا ہوا: مزید آگے چلے جائو اور اوکملگی (جارجیا) سے بھی پرے نکل جائو وہاں بڑی خوبصورت جگہیں پائی جاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ کے لیے تمہاری ہو جائیں گی۔ اب وہ کہتا ہے: جس زمین پر تم رہائش پزیر ہو وہ تمہاری نہیں اب تم مس سیپی سے بھی آگے نکل جائو وہاں تمہیں زیادہ شکار ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا عظیم باپ وہاں بھی نہ آن پہنچے گا۔ میں اپنے عظیم باپ کی متعدد تقاریر سن چکا ہوں۔ ان کی ابتدا اور انتہا یہی رہی ہے: تھوڑے پرے ہٹ جائو۔ تم لوگ مجھ سے کچھ زیادہ ہی قریب ہو‘‘۔ (اسپیکلڈ اسنیک، کریک قبیلے کا بوڑھا سردار)
٭ دیکھو میرے بھائیو! بہار آگئی، زمین سورج سے بغل گیر ہوچکی اور جلد ہی ہم اس پیار کے پھل دیکھ لیں گے۔ ایک ایک بیج جاگ چکا ہے اور جانور بھی۔ ہماری بستی بھی اس پراسرار طاقت کی مرہون منت ہے اس لیے اس زمین پر رہنے کا حق ہم سب پڑوسیوں کو دیتے ہیں خواہ وہ جانور ہی کیوں نہ ہوں۔ اے لوگو! ہمارا پالا ایک مختلف نسل سے پڑا ہے۔ جب ہمارے پرکھوں نے انہیں پہلے یہاں دیکھا تھا تو یہ لوگ بہت کمزور اور منحنی سے ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کی طاقت اور جبر کی کوئی حد نہیں۔ حیرت ہے کہ ان لوگوں کو زمین کاشت کرنے کا دماغ بالکل نہیں لیکن چیزوں کی ملکیت کی محبت ان میں ایک وباکی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے بے شمار قوانین بنا رکھے ہیں جنہیں دولت مند جب چاہیں توڑ سکتے ہیں لیکن مفلس کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ ان کا مذہب ایسا ہے جس میں غریب تو عبادت کرتے ہیں لیکن امیر نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ غریبوں سے ٹیکس لے کر دولت مندوں اور حکمرانوں کو دیتے ہیں۔ وہ ہماری اس دھرتی کے مالک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پڑوسیوں کو اس سے دور رکھنے کے لیے باڑیں لگاتے ہیں اور اپنی عمارتوں اور فضلے سے اس کا چہرہ بگاڑتے ہیں۔ یہ قوم ایک ایسے سیلابی ریلے کی مانند ہے جو کناروں کو توڑ کر راستے میں آنے والی ہر شے کو فناکرتا جاتا ہے۔ (سیو قبیلے کے سردار یاتانکا توتانکا عرف سیٹنگ بل)
٭ گوروں کو ہمارے بزرگوں نے پہلی بار ستر سردیوں پہلے دیکھا تھا۔ اس کی غربت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اسے کھلایا پلایا۔ اس کی قدر کی۔ اپنے یہاں کے گھاٹیوں اور گھاٹوں کی سیر کرائی۔ اس نے کیا کیا؟ ہماری ہڈیوں سے قبریں بھردیں۔ اس کا تو راستہ ہی تخریب اور انہدام کا ہے۔ جس روح عظیم نے ہمیں یہ دیس عطا کیا اس کی بنائی ہوئی ہر خوبصورت اور صاف چیز کو یہ آلودہ کردیتا ہے۔ اس کے بنائے ہوئے قوانین کی بدولت ہمیں ایک تنکا، درخت، بطخ، ہنس یا مچھلی تک نہیں ملی۔ جب تک وہ زندہ ہے آتا رہے گا اور ہم سے مزید چھینتا رہے گا۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی نجات کی خاطر ایک کنواری کا بچہ مصلوب کردیا گیا تھا۔ کاش اس بچے کے ساتھ سب گورے بھی مرگئے ہوتے تو ہم بھی آج محفوظ ہوتے اور ہمارا دیس ہمارے پاس ہی رہتا (سردار شارلٹ 1876)۔