ایک زمانے تک ہمارا خیال یہ رہا ہے کہ پاکستان کے انگریزی اخبارات اور ان کے اکثر لکھنے والے اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اسلامی پاکستان کے دشمن ہیں مگر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے اردو اخبارات اور ان کے لکھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد نے بھی اس سلسلے میں ’’خود کفالت‘‘ حاصل کرلی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یاسر پیرزادہ کا روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والا کالم ہے۔ اس کالم میں یاسر پیرزادہ نے دو بڑے ’’کارنامے‘‘ انجام دیے ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دعا کے قرآنی اور نبوی تصور پر بھرپور حملہ کیا ہے۔ ان کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام اور دعا کو صرف آخرت سے وابستہ کرکے انہیں دنیا سے لاتعلق کردیا ہے۔ ان کے کالم کا اہم ترین حصہ یہ ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’دراصل دنیاوی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، دنیا کے معاملات دنیا کے اصولوں پر چلتے ہیں۔ یورپ نے اتحاد کے لیے کلیسائوں میں دعائیں مانگیں اور نہ اسرائیل نے عربوں کو شکست دینے کے لیے فقط دعائوں پر انحصار کیا، آج امریکا اس وجہ سے سپر پاور نہیں کہ وہاں پادری ہر اتوار کو چرچ میں جا کر امریکا کی سربلندی کی دعائیں کرتے ہیں بلکہ امریکا کی طاقت انہی اصولوں کو اپنانے کی وجہ سے جو دنیا میں طاقت کے حصول کے لیے اپنائے جاتے ہیں۔ یہ دنیا جن اصولوں کے تحت چلتی ہے اگر وہ مذہب کے تابع ہوتے تو کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوتی، کوئی بچہ اپاہج پیدا نہ ہوتا، کوئی شخص بھوکا نہ سوتا، کوئی بے گناہ جنگ میں نہ مارا جاتا، کسی کمزور کی عزت نیلام نہ ہوتی، کسی زلزلے میں دودھ پیتے بچے نہ ہلاک ہوتے۔ یہ دنیا طبعی اور غیر طبعی قوانین کا مجموعہ ہے، جب ہم بے بس ہو کر خدا سے دعا کرتے ہیں تو دراصل اس سے اِن قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کررہے ہوتے ہیں جو ممکن نہیں کیوں کہ اگر ایسا ہونا شروع ہوجائے تو پھر سر درد کی گولی تو ایمان والوں پر اثر کرے مگر پستول کی گولی ایمان والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دعائوں سے دنیاوی مسئلے حل ہوسکتے ہیں (پیغمبروں کی فضیلت اور اُن کی دُعا کی بات الگ ہے جسے ہم گناہگار نہیں پاسکتے) جب کہ مذہب کا یہ موضوع ہی نہیں، مذہب تو انسان کے زندگی بعداز موت کے معاملے کو سلجھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ مرنے کے بعد جب تم اُٹھائے جائو گے تو روز حشر برپا ہوگا، وہاں جزا اور سزا کا تعین ہوگا، اس امتحان میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تم دنیا میں ایک پاکیزہ زندگی اپنے رب کے احکامات کے مطابق گزارو، مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکیزہ زندگی گزارنے کی صورت میں دنیا میں تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی کیوں کہ یہ دنیا جن اصولوں پر قائم ہے وہ اُن اصولوں سے مختلف ہیں جو روزِ محشر لاگو ہوں گے سو، خدا کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کا اجر ہمیں بعداز موت جنت کی صورت میں ملے گا، یہ خدا کا وعدہ ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ 5 فروری 2020)
یاسر پیرزادہ کے کالم میں اور بھی کئی ’’مسائل‘‘ ہیں۔ اگر ممکن ہوا تو ان پر بھی بات ہوگی مگر یہاں سوال یہ ہے کہ پہلے کس چیز سے گفتگو کا آغاز کیا جائے۔ چلیے پہلے دعا کے قرآنی اور نبویؐ تصور سے بات شروع کرتے ہیں۔
ہمارے سامنے مسلم دُنیا کے سب سے بڑے عالم دین امام غزالی معرکہ آرا تصنیف احیا العلوم کی جلد اوّل رکھی ہوئی ہے۔ اس جلد میں غزالی نے دعا اور اس کے فلسفے پر پورا ایک باب رقم کیا ہے۔ غزالی نے دعا کے حوالے سے قرآن مجید کی جو پہلی آیت کوٹ کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے۔
’’اور جب میرے بندے آپؐ سے میرے متعلق دریافت کریں تو (آپ میری طرف سے فرما دیجیے) میں قریب ہوں اور ہر عرضی درخواست کرنے والے کی منظور کرتا ہوں۔ وہ مجھ سے دعا کرلے اور ان کو چاہیے کہ وہ میرے احکام کو قبول کریں۔ (پارہ 14، رکوع 14، آیت 55)
امام غزالی نے دوسری آیت یہ تحریر کی ہے۔ ’’اور تمہارے پروردگار نے فرما دیا ہے کہ مجھ کو پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
(پارہ 24، رکوع 11، آیت 60)
جیسا کہ ظاہر ہے کہ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں کہا کہ دعا صرف آخرت سے متعلق ہے اس کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔
امام غزالی نے دعا کے سلسلے میں جو احادیث مبارکہ پیش کی ہیں ان میں سے چند کا ترجمہ یہ ہے۔
(1) دعا مانگنا عبادت ہے۔ (2) دعا عبادت کا مغز ہے۔ (3) اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ عظیم چیز کوئی نہیں۔ (4) بندہ دعا کے ذریعے تین چیزوں میں سے ایک جانے نہیں دیتا۔ یا تو اس کا گناہ بخش دیا جاتا ہے یا اسے کوئی اچھی چیز فوراً عطا کردی جاتی ہے یا آئندہ کے لیے ذخیرہ کرلی جاتی ہے۔ (5) اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل و کرم کی درخواست کرو۔ اللہ کو یہ اچھا لگتا ہے کہ کوئی اس سے مانگے۔ بہترین عبادت یہ ہے کہ انسان خوشحالی کا انتظار کرلے۔
ان احادیث مبارکہ سے ظاہر ہے کہ دعا سے زیادہ عظیم چیز کوئی نہیں انسان کا عمل بھی نہیں۔ بلاشبہ زندگی عمل سے بدلتی ہے مگر عمل بھی وہی بابرکت ہوتا ہے جس کے ساتھ دعا منسلک ہو۔ ان احادیث مبارک سے صاف ظاہر ہے کہ دعا کا تعلق آخروی زندگی سے بھی ہے اور دنیا کی زندگی سے بھی۔ دعا انسان کی آخروی زندگی ہی کو نہیں دنیاوی زندگی کو بھی بدل سکتی ہے۔ رسول اکرمؐ سردار الانبیا تھے، خاتم النبین تھے مگر غزوہ بدر سے پہلے وہ پوری رات عبادت کرتے رہے اور دعا مانگتے رہے۔ اگر رسول اکرمؐ دعا اور خدا کی مدد کے محتاج تھے تو پھر کسی اور کی تو بساط ہی کیا ہے؟ رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ سے ظاہر ہے کہ آپؐ کا غزوہ بدر میں اپنے یا اپنے ساتھیوں کے ’’عمل‘‘ پر ’’انحصار‘‘ نہیں تھا۔ آپؐ کا انحصار ’’دعا‘‘ پر تھا اور خدا کی عطا کردہ نصرت پر تھا۔ بلاشبہ آپؐ اور آپؐ کے اصحاب نے غزوہ بدر میں اپنا ’’عمل‘‘ بھی پیش کیا۔ عمل سے آپؐ بے نیاز نہیں تھے تو کوئی اور کیسے ہوسکتا ہے مگر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ کبھی اپنے عمل کو ’’کافی‘‘ نہ سمجھے۔ ہمیشہ اس بات پر یقین رکھے کہ خدا کی مدد شامل حال ہوگی تو کام ہوگا۔
بڑے بڑے دین دار لوگ کہیں کامیاب ہوتے ہیں تو اسے اپنی اہلیت، صلاحیت اور علم کا حاصل سمجھتے ہیں، یہ گمراہی ہے۔ دعا کا معاملہ یہ ہے کہ امام غزالی نے فرمایا ہے کہ اللہ تو شیطان کی بھی دعا سنتا اور قبول کرتا ہے۔ اپنی اس بات کے ثبوت میں انہوں نے قرآن مجید کی یہ آیت کوٹ کی ہے۔
’’شیطان نے کہا تو پھر مجھ کو قیامت کے دن تک کی مہلت دیجیے۔ ارشاد ہوا جا تجھ کو مہلت دی‘‘۔
(پارہ 14، رکوع 13، آیت 36)
البتہ امام غزالی نے فرمایا ہے کہ دعا کی قبولیت کے دس آداب ہیں۔ یعنی دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ انسان دعا کی قبولیت کے آداب کو بجا لائے۔
امام غزالی نے احیا العلوم میں سیدنا موسیٰؑ کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ ایک بار سیدنا موسیٰؑ کے علاقے میں بارشیں نہ ہوئیں۔ سیدنا موسیٰؑ نے تین بار اپنی قوم کے ساتھ دعا کی مگر بارش نہ ہوئی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰؑ کو بتایا کہ آپ کی قوم میں ایک شخص چغل خوری کی عادت میں مبتلا ہے۔ سیدنا موسیٰؑ نے اس شخص کا نام پوچھا تو نام نہ بتایا گیا۔ چناں چہ سیدنا موسیٰؑ نے پوری قوم سے کہا کہ چغل خوری کی خبیث عادت سے توبہ کرو۔ سب نے توبہ کی تب بارش ہوئی۔ (احیا جلد اوّل۔ صفحہ 563)
(جاری ہے)
امام غزالی نے احیا العلوم میں سیدنا عیسیٰؑ کی ایک دعا کا حوالہ دیا ہے۔ جس کا ایک حصہ یہ ہے۔
’’اے اللہ میں ایسا ہوں کہ جو بات مجھے بُری لگے میں اسے دور نہیں کرسکتا اور جس چیز کی اُمید کرتا ہوں اس سے نفع حاصل کرنے پر قادر نہیں ہوں۔ کوئی محتاج مجھ سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ اے اللہ میرے دشمنوں کو مجھ پر خوش ہونے کا موقع نہ دے اور میری طرف سے میرے دوست کو تکلیف میں مبتلا نہ کر‘‘۔
یہ حقیقت عیاں ہے سیدنا عیسیٰؑ کی یہ پوری دعا دنیاوی زندگی سے متعلق ہے اخروی زندگی سے متعلق نہیں۔
امام غزالی نے سیدنا ابوبکرؓ کی ایک دعا بھی لکھی ہے۔ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ یہ ہے۔
’’مجھے قرآن پاک کا علم عطا فرما، اس کو میرے گوشت، میری خون، میرے کان اور میری آنکھ میں ملا دے اور اس کے مطابق میرے جسم کو استعمال کر‘‘۔
امام غزالی نے سیدنا بریدئہ الاسلمیٰؓ کی ایک دعا بھی پیش کی ہے۔ جو یہ ہے۔
(1) اے اللہ میں کمزور ہوں اپنی رضا سے میری کمزوری کو قوت عطا کر۔ مجھ کو خیر کی طرف بلا اور اسلام کو میری رضا کی انتہا قرار دے، اے اللہ میں کمزور ہوں مجھے طاقت عطا کر۔ میں ذلیل ہوں مجھے عزت دے میں تنگ دست ہوں مجھے مالدار بنا‘‘۔
امام غزالی نے ممتاز صوفی معروف کرخی کی ایک دعا کا حوالہ دیا ہے۔ اس کا ایک فقرہ یہ ہے۔
’’کیا میں تمہیں دس کلمات نہ سکھا دوں جن میں سے پانچ کا تعلق دنیا اور پانچ کا تعلق آخرت سے ہے‘‘۔
امام غزالی نے ’’احیا‘‘ میں مختلف مواقع کے لیے سکھائی گئی دعائیں تحریر کی ہیں۔ ان دعائوں کے عنوانات یہ ہیں۔ (1) گھر سے نکلتے وقت کی دعا (2) مسجد کے دروازے پر پہنچنے کی دعا (3) فجر کی سنتوں کے بعد کی دعا (4) رکوع کی دعا (5) رکوع سے اُٹھتے ہوئے کی دعا (6) مسجد سے نکلتے وقت کی دعا (7) نماز کے بعد کی دعا (8) مجلس سے اُٹھتے وقت کی دعا (9) بازار میں داخل ہونے کی دعا (10)ادائے قرض کے وقت کی دعا (11) نیا کپڑا پہنتے ہوئے کی دعا کرے (12) جب کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے (13) چاند دیکھنے کی دعا (14) جب آندھی چلے (15) کسی کے مرنے کی خبر سن کر کی جانے والی دعا (16) صدقہ دیتے وقت کی دعا (17) اگر نقصان ہوجائے (18) کام شروع کرتے وقت کی دعا (19) آسمان کی طرف دیکھنے کے وقت کی دعا (20) بجلی کی کڑک سن کر (21) اگر بجلی کی کڑک زیادہ ہو (22) جب بارش ہو (23) غصے کے وقت کی دعا (24) اگر دشمن کا ڈر ہو (25) جہاد کے موقع پر (26) اگر کان بجنے لگیں (27) دعا کی قبولیت کے موقع پر (28) اگر دعا کی قبولیت میں تاخیر ہوجائے (29) مغرب کی اذان سن کر (30) جب کوئی تردد پیش آئے (31)بدن میں تکلیف ہو یا زخم ہوجائے (32) مصیبت کے وقت (33) نیند کے وقت کی دعا (34) نیند سے بیدار ہونے کے بعد کی دعا (35) شام کے وقت کی دعا (36) آئینہ دیکھ کر کی جانے والی دعا (37) غلام اور جانور خریدتے وقت کی دعا (38) نکاح کے وقت کی دعا (39) قرض ادا کرتے ہوئے۔
جیسا کہ ظاہر ہے یہ تمام دعائیں دنیا ہی سے متعلق ہیں چناں چہ یہ دعائیں دنیا ہی کو بدلتی ہیں۔ ان دعائوں کی ہمہ گیری اور ہمہ جہتی بتارہی ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی دعا سے شروع ہوتی ہے۔ دعا میں بسر ہوتی ہے اور دعا میں ختم ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو یاسر پیرزادہ نے اپنی جہالت سے دعا کے پورے قرآنی اور نبوی تصور کی توہین کر ڈالی ہے۔
امام غزالی نے دعا سے متعلق باب میں دعا کی حکمت پر بھی مختصر گفتگو کی ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ دعا سے بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ حکم الٰہی اٹل فیصلہ ہے ہماری دعائوں سے کیسے ٹل سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کے ذریعے مصائب کا خاتمہ اور رحمت کا حصول بھی خدا ہی کا فیصلہ ہے۔ جس طرح ڈھال تیر روک لیتی ہے۔ پانی دینے سے زمین کشت زار بن جاتی ہے اسی طرح دعا بھی نزول رحمت کا سبب ہوتی ہے۔ تیر اور ڈھال کی طرح دعا اور بلا میں مقابلہ ہوتا ہے۔ لیکن حکم الٰہی اور قضا و قدر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دشمنوں کے مقابلے سے یہ کہہ کر گریز کیا جائے کہ جو ہونا ہے ہو کر رہے گا۔ کشت و خون سے کیا فائدہ۔ یا زمین میں بیج ڈال کر پانی نہ دے اور کہے کہ قسمت میں ہوا بیج اُگے گا، پانی دینے سے کیا حاصل۔ اللہ کا ارشاد ہے۔ وخُذُو حذِرَکم۔ یعنی ’’اپنا بچائو کرو‘‘۔
مذہب کی دنیاوی معاملات سے علیحدگی کی بات ایک ’’سیکولر خیال‘‘ ہے مگر یاسر پیرزادہ نے اسے اس طرح پیش کیا ہے جیسے یہ کوئی ’’مذہبی آئیڈیا‘‘ ہو۔ ارے بھائی اگر مذہب دنیا سے متعلق ہی نہیں ہے تو پھر مذہب کی ضرورت ہی کیا ہے۔ عیسائی سیدنا عیسیٰؑ سے یہ قول منسوب کرتے ہیں کہ میری سلطنت آسمان پر ہے۔ مگر رسول اکرمؐ نے تو عملاً دنیا میں ’’اسلامی ریاست‘‘ قائم کرکے دکھائی جو رسول اکرمؐ کے دنیا سے رخصت ہونے کے 29 سال بعد تک اپنی اصل حالت میں کام کرتی رہی مگر یاسر پیرزادہ اس طرح کلام کررہے ہیں جیسے رسول اکرمؐ کا ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت، جنگ و امن سے کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو۔ یاسر پیرزادہ نے کہا ہے کہ اگر دنیا مذہب کے اصولوں پر چلتی تو دنیا میں کہیں ناانصافی نہ ہوتی، کہیں کوئی بھوکا نہ ہوتا۔ ہم سب یہ بنائے علم جانتے ہیں کہ عہد رسالت اور عہد خلافت راشدہ میں عملاً یہ ہوچکا ہے اسی لیے دنیا کو ایک بار پھر عہد رسالتؐ اور عہد خلافت کے تجربے کی طرف لے جانے کی ضرورت ہے۔ رہا یہ سوال کہ لوگ زلزلے سے مرجاتے ہیں اور اپاہیج پیدا ہوتے ہیں تو یہ کوئی شرعی معاملہ نہیں یہ ایک تکوین چیز ہے اور تکوینی کا علم اللہ تعالیٰ نے انبیاتک کو نہیں دیا۔ سیدنا موسیٰؑ اور خضرؑ کے قصے سے یہ بات پوری طرح آشکار ہے۔ یاسر پیرزادہ یہ قصہ قرآن مجید میں خود پڑھ لیں۔ بلاشبہ دنیا میں طاقت کا اصول موجود ہے اور اسلام طاقت کے اس اصول کو ایک حد تک تسلیم کرتا ہے۔ چناں چہ مسلمانوں کو قرآن میں حکم ہے کہ دشمنوں سے مقابلے کے لیے اپنے گھوڑے تیار رکھیں۔ کل گھوڑوں کا مطلب گھوڑا تھا آج ٹینک، طیارے، میزائل، سیٹلائٹ، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم ہے۔ مسلمانوں کو اس سلسلے میں واقعتا محنت کرنی چاہیے۔ لیکن اسلام جسمانی اور عسکری طاقت سے کہیں زیادہ روحانی اور اخلاقی طاقت پر اصرار کرتا ہے۔ اقبال نے ان طاقتوں کے نتیجے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اتفاق سے 20ویں اور 21 ویں صدی میں مومنوں نے افغانستان میں ’’بے تیغ‘‘ ہونے کے باوجود سوویت یونین اور امریکا کی مٹی پلید کرکے دکھادی۔