وہ ہم سے کہنے لگا ’’تم لوگ پیچھے کی طرف چلے جائو اور وہاں اپنے لیے نیا ٹھکانہ ڈھونڈو کہیں غلطی سے میں تمہیں روند نہ ڈالو۔ ایک پائوں سے اس نے سرخ فام ہندیوں کو اوکونی (جنوبی کیرو لینا) سے پرے کھدیڑا اور دوسرے پائوں سے اس نے ہمارے پرکھوں کی قبریں روند ڈالیں۔۔۔ چیزوں کی ملکیت کی محبت ان میں ایک وباکی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے بے شمار قوانین بنارکھے ہیں جنہیں دولت مند جب چاہیں توڑ سکتے ہیں لیکن مفلس کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ ان کا مذہب ایسا ہے جس میں غریب تو عبادت کرتے ہیں لیکن امیر نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ غریبوں سے ٹیکس لے کر دولت مندوں اور حکمرانوں کو دیتے ہیں۔۔۔ اس کے بنائے ہوئے قوانین کی بدولت ہمیں ایک تنکا، درخت، بطخ، ہنس یا مچھلی تک نہیں ملی۔ جب تک وہ زندہ ہے آتا رہے گا اور ہم سے مزید چھینتا رہے گا۔۔۔ ریڈ انڈین سرداروں کے ان افکار میں مغربی تہذیب کی وہ روح جھانکتی نظر آتی ہے جس نے کل کی طرح آج بھی انسانیت کو عظیم سانحات سے دوچار کررکھا ہے۔ مغرب کے جدید انسان کے غرور اور جہل مرکب نے جس طرح کل دنیا کو ناروا قوانین کے ذریعے شکار کیا تھا وہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جس طرح کل ریڈ انڈینز کو پیچھے کی طرف چلے جائو کا حکم دیا جاتا تھا فلسطین اور اپنے زیر تسلط علاقوں میں اسی طرح آج بھی مظلوموں کو حقارت سے پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ ریڈ انڈینز کی طرح انسانوں کی اکثریت کو آج بھی تنگ دستی، بھوک، بیماری اور موت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ مغرب کے اصول اور تعلیمات کل بھی صرف ان تک محدود تھیں آج بھی مادی سرمائے سے سرشار مغرب کے پیمانے اور قدر پیمائی باقی دنیا کے لیے کچھ اور ہے۔ باقی دنیا کے لیے مغرب کل بھی ناقابل اعتبار اور محرومیت کا باعث تھا آج بھی ایسا ہے۔
مغرب کی پوری تاریخ کی جڑیں نسل پرستی اور انسانیت دشمنی میں پیوست ہیں۔ رومن امپائر نے عیسائیت قبول کرنے کے باوجود یورپ اور اطراف کے ممالک کے 80فی صد قبیلوں کا قتل عام کیایا انہیں غلامی میں لیا۔ ڈھائی سو سالہ مقدس صلیبی جنگوں میں روم سے لے کر فلسطین تک راستے میں پڑنے والے تمام شہروں کو جلا کر خاک اور انسانوں کو قتل کردیا۔ امریکا اور مغرب نے انسانیت کے خلاف جو بھیانک جرائم کیے ہیں ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف بیسویں صدی میں اہل مغرب نے دنیا بھر میں 33کروڑ انسانوں کو قتل کیا اور 17کروڑ انسانوں کو بھیانک سزائیں دیں۔ (انسائیکلو پیڈیا آف وائلنس یا کیلی فورنیا: پروفیسر مائیکل مین) پروفیسر مائیکل مین کی دیگر کتابوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 122قبل مسیح سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک تقریباً تیس کروڑ چالیس لاکھ انسان قتل کیے گئے۔ یورپی غلبے کے بعد صرف افریقی باشندوں کو پکڑ پکڑ کر جہاز بھر بھر کر غلام بنانے کے سلسلے میں ایک کروڑ ستر لاکھ انسان قتل کیے گئے۔
امریکا کے اپنے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق امریکی مسلح افواج نے 1776ء سے لے کر 2010 تک دوسو بیس مرتبہ مختلف ممالک کے خلاف جنگیں لڑی ہیں۔ گویا دوسو چونتیس سال میں دوسو بیس جنگیں۔ اقتصادی اور سیاسی دبائو کے ذریعے دنیا کے ممالک میں جو تبدیلیاں لائی گئیں وہ الگ ہیں۔ ہلاکو خان، چنگیزخان، تیمور اور ہٹلر کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تعداد تقریباً73ملین (7کروڑ 30لاکھ) بنتی ہے جب کہ صرف امریکا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 170ملین (17کروڑ) ہے۔ امریکا نے ایک سو ملین ریڈ انڈین (10کروڑ) 60ملین (6کروڑ) افریقی باشندوں، 10ملین (1کروڑ) ویت نامیوں، ایک ملین (10لاکھ) عراقیوں اور تقریباً نصف ملین (5لاکھ) افغانیوں کو قتل کیا ہے۔ ان سب کو ملایا جائے تو 171.5ملین (17کروڑ 15لاکھ) انسان بنتے ہیں۔
انسانیت کے خلاف حیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیاروں کا استعمال سب سے پہلے بر طانیہ اور امریکا نے کیا۔ 1756-1763 فرانسیسیوں نے ریڈ انڈینز میں ایسے کمبل تقسیم کیے تھے جن میں خسرہ کے جراثیم تھے۔ ایسے ہی کمبل 1834 میں رچرڈ ہنری نے سان فرانسسکو میں تقسیم کیے تھے۔ ایڈز کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے جراثیم فورٹ ڈسٹرکٹ میری لینڈ کی فوجی تجربہ گاہ میں تیار کیے گئے۔
آج ہم مغرب کی مادی تہذیب کے غلبے کے زمانے میں زندہ ہیں۔ اس تہذیب کی عمارت ریڈ انڈینز اور نہ جانے کن کن قوموں کی تہذیب کے ویرانوں اور لاشوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ باقی دنیا آج بھی امریکا اور مغربی ممالک کے لیے ریڈ انڈینز کی مثل ہے۔ نجانے کہاں کہاں وہ بے گناہ اور معصوم لوگوں کو اتنی ہی بے رحمی سے قتل کررہے ہیں۔ کروز میزائلوں، ڈیزی کٹر اور کلسٹربموں سے معصوموں، بے گناہوں، بے کسوں اور لاچاروں کی جان لے رہے ہیں۔ ایک ملک کے بعد دوسرے ملک میں ہر روز ریڈ انڈینز کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ مہلک ہتھیار پوری قوت کے ساتھ خطرناک تعداد میں بلندی سے گرائے جارہے ہیں جن سے انسان مررہے ہیں، معذور اور اپاہج ہورہے ہیں گل سڑ رہے ہیں۔ بمباری سے تباہ ہونے والے گھروں کے اندر سردی بھوک اور پیاس سے مرنے والے مکین، بارودی سرنگوں کا شکار بننے والے، بھوک اور دھماکوں سے جاں بحق ہونے والے مہاجرین، ٹارچر کیمپوں میں سسکتے اور امریکی ایجنسیوں کے ذریعے سزائے موت پانے والے ان کے علاوہ ہیں۔
اسلامی ممالک کے خلاف امریکی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ آج امریکا کے لیے مسلمان ریڈ انڈینز کی مانند ہیں دنیا بھر میں وہ جنہیں مٹانے کے درپے ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان ریاستوں کو امریکا اور یورپی ممالک فوجی، معاشی اور سیاسی ظلم وستم کے ذریعے ریڈ انڈینز کی طرح جینے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ میڈ لین البرائٹ سے ایک ٹی وی انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق عراق میں اب تک نصف ملین بچے مر چکے ہیں اور یہ تعداد ہیروشیما میں مرنے والے بچوں سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ کا خیال ہے کیا ایسا ہونا چاہیے تھا؟ جواب میں میڈلین البرائٹ نے بھنویں اچکاتے ہوئے لا پروائی سے کہا ’’گو کہ یہ ایک سخت راستہ تھا لیکن میرے خیال میں ایسا ہی ہونا چاہیے تھا‘‘۔
’’ہم ہندیوں کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔ تم قبائل کو الگ الگ کرکے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہو۔ ہندی قبائل کے درمیان یہ امتیاز قائم کرکے اور ہر قبیلے کو ایک خاص قطعہ زمین دے کر ایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہو‘‘۔ ریڈ انڈین سردار کی تقریر میں بیان کردہ یہی طریقہ آج بھی امریکا کی قوت کا محرک ہے۔ خلا فت عثمانیہ کو چھوٹے چھوٹے قطعات زمین میں تقسیم کرکے امریکا آج بھی اسی طرح مسلمان ممالک کو باہم لڑوا رہا ہے اور ان کے اتحاد کی کوششوں کو بد حواسی اور پریشان خیالی میں تبدیل کررہا ہے۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے جرائم، جارحیت اور ظلم وستم کے خلاف کیا کیا جائے؟ کیا ہم بھی ریڈ انڈینز کی طرح ملیا میٹ ملیا میٹ ہوجائیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ ریڈ انڈینز کا المیہ یہ تھا کہ ان کے پاس کوئی موثر قوت نہیں تھی۔ ان کے پاس اسلام نہیں تھا۔ اسلام جو مسلمانوں کو تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہر عہد میں ظالم کے خلاف جہاد کا حکم دیتا ہے۔ جب ظالم فتنہ وفساد پھیلائے، دوسروں کی جان پر ناحق حملہ کرے تو اپنی جان کا حق کھودیتا ہے۔ جب کوئی فرد یا قوم اس بڑے جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو اس برائی کا خاتمہ ضروری ہے۔ جہاد جس کا ذریعہ ہے۔ افغان مجاہدین نے امریکا کے خلاف جس کی طاقت دنیا کو دکھادی ہے۔ یہ جہاد ہی ہے جو تنکوں کو پہاڑ کا وقار عطا کرتا ہے، خاک کو کوثر کی بلندی بخشتا ہے اور مظلوم کی خاموشی کو قیامت کے شور میں بدل دیتا ہے۔