طیب اردوان کا دورہ پاکستان

409

قاسم جمال
ترک صدر طیب اردوان پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد اپنے ملک روانہ ہوگئے۔ ترک صدر نے اپنے دورے پاکستان کے دوران ترک پاکستان دوستی میں مزید استحکام اور مضبوطی کے لیے اہم اقدامات کیے انہوں نے پاکستان کے ساتھ دفاع، عسکری تربیت، ریلوے، ٹرانسپورٹ، مواصلات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سیاحت وثقافت، ایروسپیس انڈسٹری، تجارت، خوراک، پوسٹل سروسز، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سمیت 12مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے مفاہمت کی یادشتوں پر دستخط بھی کیے۔ طیب اردوان نے اپنے دو روزہ دورے کے دوران میں پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ پاک ترک بزنس فورم سے بھی خطاب کیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں طیب اردوان نے اپنا دل کھول کر پیش کر دیا۔ پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی کھڑے ہوکر عالم اسلام کے اس عظیم قائد کا فقیدالمثال اور تاریخی استقبال کیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے طیب اردوان نے کہا کہ ہم یہاں پاکستان میں کبھی بھی اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہیں کرتے۔ براعظم ایشیا کے اہم مرکز اور عالم اسلام کے اس جغرافیائی خطے میں اپنے آپ کو اپنے ہی گھر میں محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکی پاکستان تعلقات جو سب کے لیے قابل رشک ہیں دراصل تاریخی واقعات ہی کے نتیجے میں مستحکم، مضبوط اور پائیدار ہوئے ہیں اور اسے حقیقی برادرانہ تعلقات کا روپ دیا گیا ہے۔ طیب اردوان نے کہا کہ سلطنت غزنیہ کے بانی محمود غزنوی کے دور ہی سے ترک اس وسیع جغرافیے کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ سلطنت مغلیہ کے بانی ترکی النسل ظہیرالدین بابر ودیگر مغل حکمرانوں نے موجودہ پاکستان سمیت تمام خطے پر تقریباً 350سال حکومت کی اور ہماری مشترکہ تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات شاعر اعظم محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے قیمتی ورثہ ہی کے نتیجے میں موجودہ دورتک پہنچے ہیں۔ طیب اردوان نے کہا کہ ہم حیدرآباد سے اسلام آباد تک ترکی کے لیے دعائیں کرنے والوں کو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں اور ایسا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے ساتھ ازل سے چلے آنے والے ہمارے برادرانہ تعلقات تاابد قائم رہیںگے کیونکہ ہمارا اخوت کا رشتہ رشتہ داری نہیں بلکہ دل کی لگن کا رشتہ ہے۔ ہمارے لیے کشمیر بھی وہی حیثیت رکھتا ہے جو پاکستان کے لیے ہے۔ پاکستان کا دکھ ہمارا دکھ، پاکستان کی خوشی ہماری خوشی اور پاکستان کی کامیابی ہماری کامیابی ہے۔ ہمارے تعلقات مفادات نہیں بلکہ عشق اور محبت پر مبنی ہیں۔ سرحدیں اور فاصلے مسلمانوں کے دلوں کے درمیان دیوار نہیں بن سکتے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف ان کا ساتھ دینا ہم سب کا فرض ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ظلم کا مقابلہ نہ کرنا ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ مسلم امہ دہشت گردی، جنگوں، مذہب پرستی، مفلسی اور غربت کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ہمیں عزم یقین اور خود اعتمادی سے کام لینا ہوگا۔ قوموں کی کامیابی کے حصول میں استحکام اور اتحاد دو لازم وملزوم عوامل ہیں۔
بلاشبہ ترک وزیراعظم کا خطاب ایک سچے اور محب اسلام قائد کا خطاب تھا جس میں انہوں نے اپنا دل چیر کر پاکستانی قوم کو دکھا دیا۔ ترکی اور ترک قوم کی پاکستان اور پاکستانی قوم سے محبت اور عقیدت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ترکی کا جرات مندانہ موقوف اس کی واضح دلیل ہے۔ طیب اردوان نے امت مسلمہ کی نمائندگی اور ترجمانی کا ہمیشہ حق ادا کیا ہے۔ ان کا خطاب ایک سچے مخلص قائد اور محب اسلام کا خطاب تھا۔ طیب اردوان نے کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو ترکی ترک عوام اور امت مسلمہ کے مسائل قرار دیا اور انہوں نے امت مسلمہ پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے اتحاد ویکجہتی کا راستہ اختیار کرے۔ طیب اردوان کے خطاب نے پوری پاکستانی قوم کے دل جیت لیے ہیں۔ طیب اردوان نے اپنی تقریر میں جس بات پر زیادہ زور دیا وہ پاکستان اور ترکی کے تاریخی رشتوں کا حوالہ ہے۔ انہوں نے تحریک خلافت میں برصغیر کے مسلمانوںکی قربانیوں کا بھی ذکر کیا اور مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور علامہ اقبال کو انہوں نے اپنا ہیرو قرار دیا۔ ان کا خطاب ایک ایسے دور میں جب کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے لیا جانے والا یوٹرن کا زخم بھی تازہ ہے۔ پاکستان کے حکمران امریکا اور اس کے آلہ کاروں کے چنگل سے آزاد ہونے کو بھی تیار نہیں اور وہ معمولی گیڈر بھبکیوں پر ہی چاروں خانے چت ہوجاتے ہیں۔ ایک ایسے حالات میں طیب اردوان کا دورہ پاکستان پاکستانی عوام اور امت کو مہمیز دینے والا تھا۔ طیب اردوان کے دورے سے پاک ترک دوستی کے ایک نئے روشن مستقبل کا آغاز ثابت ہوگا۔ پاکستان کے حکمرانوں بھی چاہیے کہ وہ ترکی سے سبق حاصل کریں۔
طیب اردوان جو 1994 استنبول کے میئر منتخب ہوئے تھے انہوں نے اپنے دور میں استنبول شہر میں 70سالہ پانی کا مسئلہ حل کروایا اور پورے شہر میں پانی کی نئی لائین ڈالی اس کے علاوہ 2003 سے 2014 تک وہ ترکی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 2014 سے اب تک وہ ترکی کے منتخب صدر ہیں انہوں نے اپنے دور میں ترکی کو ایک جدید ترقی یافتہ مستحکم اور خوشحال ملک بنایا۔ انہوں نے اپنے ملک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے مکمل طور پر نجات دلوائی اور تمام قرضے ادا کرنے کے بعد ان اداروں سے کہا کہ وہ اب ترکی سے قرضہ لیں۔ 2008 میں جب اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو پوری دنیا میں طیب اردوان ہی وہ واحد مسلم لیڈر تھے جو اسرائیل کے خلاف کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اقتصادی فورم میں اسرائیل اور امریکا کے خلاف سخت احتجاج کیا اور اقتصادی فورم کا بائیکاٹ کیا۔ 15جولائی 2012 کو جب فوج نے ملک پر قبضہ کرنے اور مارشل لا لگانے کی کوشش کی تو ترک عوام اپنی جان ہتھیلی پر لے کر سڑکوں پر نکل آئے اور فوج کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ پوری دنیا عوام کے اس ردعمل پر بڑے حیران تھے اور عوامی طاقت اور قوت کے بل پر طیب اردوان نے فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ طیب اردوان نے ملک کے بجائے بلاشبہ ترک قوم کے دلوں پر حکومت کی۔ طیب اردوان اسلام اور دنیا کے ہر ایک مسلمان سے والہانہ محبت اور پیار کرتے ہیں اور ہر مشکل گھڑی میں وہ ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ترکی کو ترقی کے سفر پر گامزن کیا۔ غربت کے خاتمے کے لیے گرین کارڈ کا اجراء کیا گیا۔ سودی معیشت اور قرضے ختم کر کے زرعی بینک قائم کر کے زرعی قرضے دیے گئے۔ تعلیمی نظام میں بہتری پیدا کی گئی جس کے نتیجے میں 25000 کے بجائے آج 7لاکھ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ملک میں یونی ورسٹیوں کی تعداد 97 سے بڑھ کر 190 ہوگئی ہے۔ 180نئی مساجد تعمیر کی گئیں اور پرانی مساجد کو بحال کیا گیا۔ خواتین کو پردے کے ساتھ ملازمت کرنے کی اجازت دی گئی اور ترک خواتین بھی ترکی کی تعمیر وترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ سیاحت کو ترقی دی گئی اور اس شعبے کی بھرپور طریقے سے سرپرستی کی گئی جس کے نتیجے میں اس سال ترکی نے 120ارب روپے سیاحت کے شعبے سے حاصل کیے ہیں۔ جذبہ سچا اور نیک ہوں تو اللہ پاک بھی اپنے نیک بندوں کی مدد فرماتا ہے۔ طیب اردوان نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ حقیقی طور پر عالم اسلام کے رہنما ہیں اور ان کا دل عالم اسلام کے ہر مسلمان کے لیے دھڑکتا ہے۔
پاکستان خالصتاً اسلام کے نام پر قائم ہوا لیکن یہاں اسلام کے بجائے مفاد پرستوں کی حکمرانی رہی ہے۔ 70سال سے مخصوص اشرافیہ نے پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اسے دیوالیہ کر کے ایک ناکام ریاست بنانے کی کوشش کی۔ عمران خان جو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار ہیں لیکن انہوں نے اپنے اردگرد جن لوگوں کو اکٹھا کیا ہوا ہے ان کا دور دور سے بھی ان لوگوں سے تعلق نہیں جو پیٹ پر پتھر باندھنے والے تھے۔ ملک میں آج آٹا چینی کا بحران ہے اس پر انگلیاں ان ہی لوگوں پر اٹھ رہی ہیں جو وزیراعظم کے دائیں بائیں موجود ہیں۔ وزیراعظم کی مخلصی کسی شک وشبے سے بالا تر ہے لیکن نااہل اور مفاد پرستوں کو جمع کر کے اور ببول کا درخت لگا کر اس میں انگور کی خواہش رکھنا دھوکا اور نادانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وزیر اعظم صاحب اب بھی وقت ہے آپ طیب اردوان سے سبق حاصل کریں پاکستانی قوم آپ کے لیے بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ جائے گی لیکن آپ ریاست مدینہ نہیں تو کم از کم ترکی میں طیب اردون والا نظام اور ان جیسی جرات ہمت تو پیدا کریں پھر دیکھیں یہ قوم آپ کے خوابوں کو کیسے شرمندہ تعبیر کرتی ہے۔