مقابلہ پوائنٹ پر نہیں ناک آؤٹ پر جیتنا پڑے گا

144

جس ملک کے وزیر اعظم کو اپنی مدتِ حکومت کے 60 ماہ میں سے 18 ماہ سے بھی زائد عرصہ گزرجانے کے بعد صرف اس بات کا احساس ہو سکا ہو کہ غریبوں کی چیخیں، کراہیں اور آہیں آسمان تک بلند کرنے کے وہ اور خود ان کی حکومت ذمے دار ہے تو باقی بچ رہنے والے 42 ماہ میں کیا وہ صرف اپنے گزرے ہوئے 18 ماہ کی تلافی کرپائیں گے یا پھر غریبوں کو 18 ماہ سے پہلے والی پوزیشن کی جانب لے جا سکیں گے۔
مہنگائی کے متعلق کسی بھی ملک کے سربراہ کا یہ اعتراف کرنا کہ اس میں ان کی اور ان کی حکومت کی کوتاہی ہے، کے بعد اصولاً تو کسی بھی ایسے وزیر اعظم کا وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا اور اگر جواز تلاش بھی کر لیا جائے تو فوری طور پر جس طرح بھی ممکن ہو، اس کا ازالہ ان پر فرض ہوجاتا ہے۔ جن یوٹیلیٹی اسٹورز پر ہمارے وزیر اعظم ’’سستی‘‘ اشیا فروخت کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان پر مقرر کی جانے والی قیمتوں کے نئے ریٹ وہی ہیں جو عام مارکیٹ میں چند ہفتے پہلے تک تھے جبکہ ان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے وہی تمام چیزیں عام مارکیٹ میں 30 سے 40 فی صد کم قیمت پر بڑی وافر مقدار میں موجود ہوا کرتی تھیں۔ قوم کو اس بات کا یقین کامل تھا کہ تبدیلی سرکار کے آنے کے بعد یہ اشیا ان سے پہلی والی حکومت کے دور سے بھی کم قیمت پر ملا کریں گی لیکن تمام تر وعدوں اور دعوؤں کے بر عکس لوگوں کو نہ صرف شدید مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی کربناک چیخیں آسمانوں کو بھی ہلانے لگیں اور نہ جانے کتنے افراد نے مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر نہ صرف اپنی زندگی کو ختم کر لیا بلکہ اپنے ساتھ اپنی اولادوں کی زندگیوں کے چراغ بھی گل کر کے رکھ دیے۔
ایک جانب وزیر اعظم اس بات کے معترف ہیں کہ اس بے تحاشا بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سبب وہ خود ہیں تو دوسری جانب وہ مہنگائی کے حق میں تاویلات بھی پیش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کبھی وہ اس کا مجرم گزشتہ حکومتوں اور خاص طور سے مسلم لیگ ن کی حکومت کو ٹھیراتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی ڈالرز کی قدر میں اضافے کو اس کا ذمے دار بنا کر اپنی کارکردگی پر دبیز پردے ڈال کر اپنی شرمندگی کو چھپانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پچھلی حکومتیں ہی سارے فتنے و فساد کی بنیاد اور مہنگائی کی ذمے دار تھیں تو ان کی حکومت میں ڈالرز محوِ پرواز کیوں نہیں تھا اور ہر قسم کی اشیائے صرف کی قیمتیں آج کی قیمتوں سے کہیں 200 فی صد اور کہیں 50 فی صد سے کم کیوں تھیں۔ رہی ڈالر کی قدر میں اضافے کی بات تو یہ سب موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے ہوا۔ اسی طرح گیس، بجلی اور پٹرول کے نرخ میں ہوشربا اضافہ بھی آپ ہی کی حکومت میں ہوا۔ اضافہ تو اپنی جگہ لیکن حکومت میں آنے سے قبل آپ کے دعوے تو اس کے بہت بر عکس تھے اور ڈالر کی قدر میں ایک روپے کا اضافہ یا اشیائے صرف کے نرخ کا بڑھ جانا آپ کے نزدیک حکمرانوں کا چور ہونا گنا جاتا تھا۔ اگر آپ کی ساری تاویلات کو مان بھی لیا جائے کہ مہنگائی کا یہ سارا طوفان گزرجانے والوں ہی کی کوتاہیوں کی وجہ سے بپا ہے تب بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا فرد جس کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ لازماً تختِ حکومت پر سرفراز ہوگا تو اس کی نظروں سے یہ بات کیوں پوشیدہ تھی کہ ملک کی معاشی صورت حال اتنی ابتر ہے کہ اگر وہ کرسی اقتدار پر براجمان ہو بھی گیا تو وہ مہنگائی کے آگے نہ صرف بند باندھنے میں ناکام رہے گا بلکہ سیلابی ریلے کے سبب جن جن پشتوں میں شگاف پڑ چکے ہیں، وہ وسیع سے وسیع تر ہوتے جائیں گے۔
دو ہی صورتیں ایسی ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے ایسا کچھ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہو گا۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ آپ کے اس وقت کے مشیران نے ملک کی ابتر صورت حال کی حقیقی تصویر کشی نہیں کی ہوگی یا آپ جانتے تو سب کچھ ہوںگے لیکن قوم کو حقیقت بتانے سے اس لیے گریز کر رہے ہوںگے کہ قوم آپ کو مسترد کر کے پچھلوں پر ہی اپنے اعتماد کا اظہار کردے۔ ہر دو صورت میں آپ اپنی ذمے داری سے کسی بھی طور پر بری قرار نہیں دیے جاسکتے۔ اب اگر کوتاہی کا اعتراف کر ہی لیا ہے تو آپ پر نہ صرف اس کا ازالہ فرض ہے بلکہ مہنگائی کے اس سونامی کے پیچھے جو جو افراد یا مافیائیں ہیں ان پر بھر پور ہاتھ ڈالنا بھی آپ کے فرائض میں شامل ہو چکا ہے۔
اتنا کچھ جان لینے کے باوجود بھی آپ کو اپنا چشمہ بدل لینے کا کسی بھی قسم کا کوئی پروگرام دکھائی دیتا نظر نہیں آرہا اور آپ کے بیان اور خدشات کے مطابق آپ نے تمام تر قصوروار اپنے سے پچھلی حکومتوں کو قرار دینے کا روایتی انداز بالکل اسی طرح اپنا رکھا جس طرح آپ سے پہلے والے سارے حکمران اپنا تے رہے ہیں۔ آپ کا یہ فرمانا کہ ’’کھانے پینے کی جو چیزیں مہنگی ہوئی ہیں، چینی اور آٹا جو مہنگا ہوا ہے اس میں ہماری کوتاہی ہے۔ اس پر پوری تحقیق ہو رہی ہے۔ جانتے ہیں کس نے مہنگائی کر کے فائدہ اٹھایا ہے۔ سب پتا چل گیا ہے۔ مہنگائی کر کے پیسہ بنانے والوں کو چھوڑیں گے نہیں۔ سسٹم ایسا بنائیں گے جس سے پتا چل سکے کس چیز کی کس وقت ضرورت ہے‘‘۔ اپنی ناکامی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ تاثر دیتا ہوا نظر آتا کہ ہم اپنی تمام تر کوتاہی کے باوجود مہنگائی پر کنٹرول پانے کے بجائے مہنگائی کے جال میں مزید الجھتے جائیں گے۔ جب کسی حکمران کو یہ خبر بھی ہو کہ مہنگائی کے اصل ذمے دار کون لوگ یا ادارے ہیں، اس کے باوجود بھی ان کا نام نہ لینا یا ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کرنا اس بات کی علامت ہے کہ آپ اصل ذمے داروں کو جان لینے کے باوجود بھی ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے نہ صرف کسی مصلحت کا شکار ہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ جن کی جانب آپ کا شک جارہا ہے وہ خود آپ کی حکومت کے ایسے ستون ہوں جن پر آپ کے اقتدار کی عمارت کھڑی ہوئی ہو۔ اس کا عملی مظاہر جو اب تک سامنے آیا ہے وہ بھی اسی بات کا غماز ہے کہ آپ کی حکومت نے اب تک جس جس کے خلاف کارروائی کی ہے وہ آپ کی اپوزیشن کرنے والے افراد ہیں۔
آپ کا یہ کہنا بجا کہ جو جو بھی مہنگائی کا ذمے دار ہے اسے آپ کسی صورت نہیں بخشیں گے، بجا ہے اور بے شک ایسا ہی ہونا بھی چاہیے، لیکن اب تک کے تجربات آپ کے ہر دعوے کے برعکس ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ہر وہ فرد جس کو آپ نے ملک کی دولت لوٹنے کے جرم میں انجام تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا وہ سب کے سب ضمانتوں پر کچھ ملک میں اور کچھ ملک سے باہر عیش و آرام کی زندگی گزارتے نظر آ رہے ہیں۔ آپ کے ایسے ہی دعوؤں کو سامنے رکھ کر قوم اب کس طرح اس بات کو سچ مان لے کہ آپ مہنگائی کے اصل ذمے داروں کو نشانِ عبرت بنا کر ہی دم لیں گے۔
قوم آپ کو اب تک کتنا پسند کرتی ہے، اس بات کا اندازہ آپ اور آپ کی حکومت اس بات سے بخوبی لگا سکتی ہے کہ ہوشربا مہنگائی، ہر قسم کی وعدہ خلافیوں، ہر عزم کو بیچ چوراہے پر توڑ دینے، ہر قومی مجرم کو چھوڑ دینے اور تمام تر بد انتظامیوں کے باوجود لوگ بہر حال آپ کے خلاف سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے ہیں اور اس بات کی ابھی تک امیدیں باندھے ہوئے ہیں کہ منجھدھار میں پھنسی معیشت کی نیا کو آپ کنارے لگانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ اپوزیشن اس بات کی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کی پریشانی کا بھرپور فائدہ اٹھائیں لیکن وہ اب تک عوام کے صبر و ضبط کے پیمانے کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ لہٰذا آپ وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اس ملک کو لوٹنے، نوچنے اور برباد کرنے والوں کے خلاف کسی بھی لحاظ و تمیز کے بغیر بے رحمانہ کارروائی کر گزریں تاکہ پاکستان کے وہ عوام جو اپنی آس آپ کی جانب سے کسی صورت توڑنے کے لیے تیار نہیں، سکھ چین کا سانس لے سکیں اور پاکستان کو آپ کے وژن کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں بھر پور حصہ لے سکیں۔
یہ بات آپ کے ذہن میں بہر صورت رہنا ضروری ہے کہ آپ کے پاس اب صرف 42 ماہ رہ گئے ہیں۔ وقت کم رہ گیا ہے اور مقابلہ اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں جیت کے لیے صرف اور صرف مخالفین کو ’’ناک آؤٹ‘‘ کرنے کے علاوہ اور کوئی بھی آپشن موجود نہیں۔ پوائنٹ کی بنیاد پر اب اس مقابلے کو جیتنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اس لیے اپنے عزم و ہمت کو تازہ کریں اور مخالفین پر اتنی بھر پور ضرب لگائیں کہ انہیں رنگ میں اٹھنے اور سانسیں بحال رکھنے تک کا موقع نہ مل سکے۔