پاکستان کے اسٹریٹجک فیصلوں کے اثرات خطے پر مرتب ہوئے، جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے حملہ آوروں کی دلچسپی کا مرکز رہا
افغانستان میں امن کے قیام سے خطے کی کنیکٹیویٹی بہتر ہوگی ، لیڈر شپ کی صلاحیتیں مشکل وقت میں سامنے آتی ہیں
کراچی
سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل (ر) زبیر محمود حیات نے کہا ہے کہ صنعتی ترقی کے لیے سی پیک ایک آئیڈیل پلیٹ فارم ہے،پاکستان دس سال میں ایک ہزار ارب ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے،افغانستان میں امن کے قیام سے خطے کی کنیکٹیویٹی بہتر ہوگی ، لیڈر شپ کی صلاحیتیں مشکل وقت میں سامنے آتی ہیں،پاکستان نے ہمیشہ چیلنجز میں خود کو بہتر بنایا،پاکستان کے اسٹریٹجک فیصلوں کے اثرات خطے پر بھی مرتب ہوئے،یہ خطہ اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے حملہ آوروں کی دلچسپی کا مرکز رہا اوراس سرزمین کے وسائل کے لیے لوگ دوسرے خطوں سے آتے رہے،وہ گزشتہ روز کراچی کے مقامی ہوٹل میںسی ای او سمٹ سے خطاب کررہے تھے ،سمٹ سے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔جنرل (ر) زبیر محمود حیات کا اپنے خطاب میںمزید کہنا تھا کہ اس خطے کے لوگ باصلاحیت ہیں
،مغل حکمرانوں نے بھی اس سرزمین کی زرخیزی تجارت کی اہمیت کی وجہ سے یہاں کا رخ کیا ،باکو میں ملتان سرائے موجود ہے،تاریخ میں لوگ بحرہ کیسپین سے اس خطے کے زریعے رسائی حاصل کرتے تھے،پاکستان کا قومی سرمایہ نوجوان نسل ہے ،پاکستان کی باصلاحیت خواتین حکومت اور کاروبار میں شمولیت اختیار کررہی ہیں ،پاکستان کی مجموعی پیداوار خواتین کی شمولیت سے 3 سے 5 فیصد بڑھائی جاسکتی ہے ،پاکستانی نوجوان آن لائن گیمز میں جاپان امریکا روس کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں ،ایک پاکستانی نے میٹرلرجی کو تبدیل کردیا،نوجوانوں نے استعمال شدہ اشیاءکی ان لائن تجارت کا پلیٹ فارم بنایا،پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر ایماندار ہے،پاکستانی بیرون ملک ایمانداری کی مثالیں قائم کررہے ہیں ،دبئی میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے بھارتی مسافر کو اس کا قیمتی سامان لوٹایا،بدقسمتی سے ہم نے اپنی طاقت کا اندازہ نہیں لگایا، نوجوان پاکستانیوں نے ہائی برڈ سولر سلوشن تیار کرلیا
ایک اور پاکستانی نوجوان نے بائیو ادویات تیار کیں،ایک نوجوان نے پینے کے پانی سے ارسینک ختم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا،ان نوجوانوں کو آپ کی سرپرستی درکار ہے،کارپوریٹ ادارے باصلاحیت نوجوانوں کی سرپرستی کریں تو ملک کو ترقی کی منازل طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا،اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے پاکستان میں امن کی تعریف کی ،ہمیں اپنی سوچ کو بڑا کرنا ہوگا اوراپنی سوچ بڑی کرکے ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔زبیر محمود حیات کا کہنا تھا کہ ہمیںطرز فکر تبدیل کرنا ہوگا اور صارف کے بجائے پیداوار کرنے والا ملک بننا ہوگا،ہمیں اپنے لوگوں کے بارے میں رائے تبدیل کرنا ہوگی ،سرمایہ کاری کرنے والوں اور روزگار دینے والوں کو عزت دینا ہوگی،تاجر کو سیٹھ سمجھنا اوربیوروکریسی کو بابو سمجھنا ترک کرنا ہوگا،اگر کوئی مستقبل ہے تو ٹیکنالوجی کے
علاوہ کچھ نہیں،پاکستان کو بھی ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ہوگا،تعلیمی نظام اور معاشرے کی اساس میں ٹیکنالوجی سے مدد لینا ہوگی اورجدت کو فروغ دیناہوگا،ہمیںانٹرپرنیور شپ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ،اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ کی تفریق ختم کرنا ہوگی،پاکستان کی زرعی پیداوار میں پچاس فیصد اضافہ کی ضرورت ہے۔سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اس بات کے بارے میں جاننا ہوتا ہے کے ایکس چینج ریٹ اور پالیسی ریٹ کیا ہوگا،پالیسی ریٹ کا تعین اسٹیٹ بینک کی کمیٹی کرتی ہے،اس کمیٹی میں حکومت کا کوئی رکن نہیں ہوتا،ملک میں مہنگائی کو دیکھتے ہوئے پالیسی ریٹ کا تعین کیا جاتا ہے،ہمارا عزم ہے کہ ایکس چینج ریٹ کا تعین مارکیٹ کریگی،آج ہم استحکام سے ترقی کے مراحل میں داخل ہوگئے ہیں،کھانے پینے کی اشیاءاس وقت مہنگی ہےں،ایک سال پہلے ایکس چینج ریٹ اور پالیسی ریٹ کو کنٹرول کیا گیا
،پچھلے سال ہمارے زرمبادلہ ذخائر گرر ہے تھے اورسوال اٹھنا شروع ہوگئے تھے کہ کیا ہمارے پاس در آمدات کے لئے زرمبادلہ ذخائر ہونگے یہ نہیں مگرآج صورتحال گذشتہ سال کی نسبت مختلف ہے،اب ملکی زرمبادلہ زخائر12سے 13ارب ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں اورہماری آمدن میں بھی اضافہ ہورہا ہے،اب کوئی پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی بات نہیں کررہا،اسٹاک مارکیٹ مستحکم نظر آرہی ہے،ایک سال کی کارکردگی دیکھےں تو ہمارے نمبرز بہتر ہوئے ہیں،جاری اور مالی خساروںمیںکمی ہماری پالیسی کی وجہ سے آئی ۔گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے ملک کی موجودہ معیشت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری برآمدات کا تناسب بہت کم ہے اور اس طرح کوئی بھی ملک نہیں چل سکتا۔سی ای او سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا کہ لوگ شرح سود اور ایکسچینج ریٹ پر بغیر پڑھے تبصرہ کرتے ہیں، ہماری ویب سائٹ پر مانیٹری پالیسی اسٹیٹمنٹ ہے جسے پڑھ لینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے پہلے ہمارے معاشی اشاریوں کی صورتحال اچھی نہیں تھی، ایک سال پہلے کی صورتحال اور آج میں بہت فرق آچکا ہے