وزیر خارجہ کی بات تو صحیح ہے مگر؟

250

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کشمیر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے جس سے عالمی امن پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ انہوں نے امریکا اور یورپ سمیت دیگر ممالک سے اپیل کی کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنی پارلیمنٹ میں اٹھائیں ۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کئی ممالک تجارتی مفادات کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پر خاموش ہیں ۔ یہ درست ہے کہ یورپی یونین نے حال ہی میں مسئلہ کشمیر پر رائے شماری کو محض اس لیے موخر کردیا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت بھارت کے خلاف قرارداد منظور کرنے کے حق میں تھی جس سے یورپی یونین کو بھارت کی ناراضی کا ڈر تھا مگر ملائیشیا جیسے ملک کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جس نے معاشی مفادات کو قربان کردیا اور حق کو مقدم رکھا ۔شاہ محمود قریشی نے جو کچھ بھی کہا ہے اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے مگر جب کسی ملک سے یہ بات کہی جاتی ہے تو وہ جوابی طور پر کہہ سکتا ہے کہ دوسروں کو نصیحت اور اپنے کو فضیحت ۔ کشمیر کو قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ کہا تھا ، پہلے دن سے کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنے کے لیے جان و مال اور عزت و آبرو ہر چیز کی قربانی دے رہے ہیں ۔ انہوں نے ایک دن بھی بھارتی استبداد کے سامنے سر نہیں جھکایا بلکہ نہتے ہو کر بھی نو لاکھ بھارتی فوج کو مصروف رکھا ہوا ہے ۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی حکومت کا رویہ مایوس کن ہے ۔ ایک طرف تو شاہ محمود قریشی افسوس کا اظہار کررہے ہیں کہ کئی ممالک اپنے معاشی مفادات کی وجہ سے خاموش ہیں تو دوسری جانب ان ہی کی حکومت بھارت کے ساتھ خود تجارتی تعلقات توڑنے کو تیار نہیں۔ شاہ محمود قریشی بتائیں کہ اقوام متحدہ کے گزشتہ سربراہ اجلاس میں بھارت کے خلاف قرارداد پیش کرنے سے انہیں کس چیز نے روکا تھا ۔ پریس کانفرنس میں تو وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و استبداد پر واویلا کررہے ہیں مگر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں بھارتی مظالم کے خلاف بات کرتے ہوئے ان کی زبان گنگ ہوگئی تھی ۔باتیں بنانے کے علاوہ 5 اگست سے لے کر اب تک پاکستان نے وہ کون سا قدم اٹھایا ہے جس سے بھارت کو احساس دلایا جاسکتا کہ اس نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے ۔ اسے عمران خان نیازی کی بھارت نوازی ہی کہا جا سکتا ہے جسے دیکھ کر بھارت کی مزید ہمت بڑھی اور اس نے 30 ستمبر کو مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کرکے اسے بھارتی ریاست میں باقاعدہ ضم کرلیا ۔ بھارت کے خلاف سب سے پہلا قدم تو پاکستان ہی کو اٹھانا تھا مگر جب بھی وقت قیام آتا ہے ، پاکستانی حکام سجدے میں ہوتے ہیں ۔ ماہرین پہلے دن سے ہی بھارت کے معاشی مقاطعے کی طرف توجہ دلارہے ہیں ۔ 5 اگست ہی کو تجویز پیش کی گئی تھی کہ بھارتی فضائی کمپنیوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عاید کردی جائے۔ اسی طرح بھارتی تاجروںکو اپنے تجارتی مال کی افغانستان کو ترسیل کے لیے پاکستان کی راہداری استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے مگر پاکستان نے یہ سب نہیں کیا ۔ جب پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات سے صرف نظر کرنے کو تیار نہیں ہے تو وہ کس منہ سے دیگر ممالک سے کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنے تجارتی مفادات کو نہ دیکھیں اور بھارت کے خلاف کارروائی کریں ۔ یہ تو ترکی اور ملائیشیا کی مہربانی ہے کہ وہ بھارت کے خلاف پاکستان سے زیادہ متحرک ہیں ۔ اسے مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ بھارت روزانہ ہی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور شیلنگ کرتا ہے جس سے پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ ساتھ معصوم شہری بھی جان سے جاتے ہیں ۔ اس کے جواب میں عمران خان نیازی کا صرف ایک بیان سامنے آتا ہے کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دیں گے ۔ بھارت سمجھ لے کہ جنگ وہ شروع کرے گا ، ختم ہم کریں گے ۔ عمران خان نیازی بتائیں کہ اس سے زیادہ وہ بھارت سے کیا توقع رکھتے ہیں ۔ وہ مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرچکا ہے ، پاکستان آنے والے دریاؤں کا رخ موڑ چکا ہے ، جب چاہتا ہے پاکستان میں خشک سالی آجاتی ہے اور جب چاہتا ہے پاکستان کو سیلاب میں ڈبو دیتا ہے ، روز کنٹرول لائن پر بمباری کرکے کئی پاکستانیوں کو شہید کردیتا ہے ، اس کے بعد بھی اب کی مار تو بتاؤں والی کیفیت ہے۔ کیا عمران خان نیازی یہ چاہتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے چپے چپے پر قبضہ کرلے ، اس کے بعد وہ اور ان کے سرپرست جاگیں گے اور انہیں ملک کی حفاظت کا خیال آئے گا ۔ ہر کچھ دن کے بعد عمران خان نیازی واویلا کرتے ہیں کہ بھارت کوئی جھوٹی کارروائی کرکے پاکستان پر حملہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا ہے ۔ عمران خان نیازی کو اب تو سمجھ جانا چاہیے کہ بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے کسی جھوٹے جواز کی ضرورت نہیں ہے ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضے اور پاکستان آنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے کے لیے کسی جواز کو پیش کرنے کی کوئی زحمت نہیں کی۔ غیرت مند قوموں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ ایک بحری جہاز پر ڈاکوؤں کے حملے کے بعد جب ایک بیٹی حکمرانوںکو پکارتی ہے تو محمد بن قاسم کو سبق سکھانے کے لیے روانہ کردیا جاتا ہے ۔ یہی رویہ تھا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں کسی کو مسلمانوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر عمران خان نیازی کے بزدلانہ اور دوستانہ ردعمل ہی کی وجہ سے مودی کو مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے اور پھر اس کے بعد بھارت میں متنازع شہریت بل لانے کی شہ ملی ۔ پاکستان کو بھی عمران خان نیازی کے بجائے محمد بن قاسم کی ضرورت ہے ۔