اس دعوے میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارا ملک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ لیکن اس امر پر بھی یقین کی حد تک شک ہے کہ ہمارے ملک میں نہ معیاری جمہوریت ہے اور نہ ہی ہمارا نظام اسلامی ہے۔ ہاں البتہ ہم یہ بات بلا جھجک کہہ سکتے ہیں کہ جمہور کے نام پر اور جمہوریت کی آڑ لے کر ملک میں طویل عرصے سے لوٹنے والے سیاستدانوں کے لیے ہمارا ملک سونے کی چڑیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ایسے شاطر اور مفاد پرست سیاستدانوں سے گزشتہ 72 سال سے دھوکا کھا رہے ہیں جبکہ یہ لوگ ملک و قوم کی دولت بغیر ڈکار کیے ہضم کیے جارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باریوں سے بیزار قوم نے پاکستان تحریک انصاف اور اس کے رہنما عمران خان کو 2018 کے انتخابات کے ذریعے آزمائشی طور پر کامیاب کرایا تھا تاکہ مسائل کا سدباب ہو اور عوام کو مجموعی طور کچھ ریلیو (Relive) مل سکے۔ مگر صرف 14 ماہ میں قوم کو یقین ہونے لگا کہ ان کے ساتھ ایک بار پھر ’’فریب‘‘ ہوگیا ہے۔ عوام کا خیال تھا کہ ہم تحریک انصاف کو ووٹ دے رہے ہیں مگر بعد میں پتا چلا کہ تحریک انصاف چلانے والا اور بنانے والا عمران خان خود پارٹی کی ’’جمہوریت کا شکار‘‘ ہوچکا یا پھر ان کی پارٹی کی ’’شکار‘‘ ہوگئی۔
عمران خان جب تک وزیراعظم نہیں بنے تھے کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں کوئی جماعت یا پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر اقتدار میں نہیں آسکتی مگر جب عمران خان کی پارٹی ا قتدار میں آگئی تو چہار طرف سے بازگشت آنے لگی کہ یہ تو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی حکومت آگئی۔ سیاست کے ’’بازوں‘‘ نے تکلفانہ انداز میں ’’خلائی مخلوق‘‘ کی حکومت کا نام دیا۔ حالانکہ یہ کہنے والے ’’باز‘‘ نہیں تو ’’شکرے‘‘ ضرور تھے۔ جو پنجروں میں پہنچ کر بھی آزاد ہوگئے۔
ملک کے سیاست دانوں کی اکثریت ایسے ہی چالاک اور شکاری پرندوں کی طرح تو ہیں جنہیں ان کی مرضی کا ٹھکانہ چاہیے ہوتا ہے۔ اس طرح کے رہنمائوں کو دیکھ کر قوم کی اکثریت بھی جانوروں کی خصلت رکھنے والی ہوچکی۔ اگر میری بات کسی کو کڑوی یا بہت بری لگ رہی ہو تو کسی بھی ’’بڑا کھانا‘‘ کی دعوت میں جاکر دیکھ لیں۔ جمہوریت کی بہترین عکاسی ایسی دعوتوں میں نظر آ جائے گی۔ بعض عشائیے و ظہرانے میں تو مجھے یہ منظر دیکھ کر روز قیامت میں قبور سے نکلنے والے مردوں کا تصور آتا ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ یقین کیجیے پاکستان کی جمہوریت ایسی ہی ہے۔ انتخابات کے دوران اسی طرح جمہوریت کے نعرے لگاتے ہوئے اس پارٹی کی طرف بڑھتی ہے جن سے اپنا معمولی مفاد پورا ہونے کی امید ہوتی ہے۔ یہ قوم جب کسی جماعت سے بچنے پر آتی ہے تو ایسے بچتی ہے جیسے تبلیغی جماعت کے چند افراد کو دیکھ کر ادھر ادھر نکل جاتی ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ مسلسل اقتدار کے چکرے میں گھومنے والے مخصوص چہروں کو تبدیلی کے جذباتی نعرے سے بدلنے کی خواہش لیکر قوم نے 25 جولائی 2018 کو کرکٹ کے میدان کے کھلاڑی عمران خان کو اقتدار کی سیاست کے اکھاڑے میں پہنچایا مگر کپتان نے جواب میں کچھ بھی نہیں دیا۔ موجودہ حکومت کے بارے میں منچلے افراد تو یہاں تک کہا کرتے ہیں کہ یہ حکومت تو ’’دھوکا‘‘ دینے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی بس معصومیت سے پلٹ جاتی ہے جسے سب یوٹرن کہتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری قوم بلکہ ہم خود جب تک دین کے راستے پر چلتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اپنا مقصد حیات نہیں بنالیتے، جب تک اطمینان سے مساجد میں عبادت کے بعد سکون سے اور سکون کے لیے مساجد میں ٹھیرنے کی عادت نہیں بنا لیتے اور صراط مستقیم پر چلتے ہوئے مدد کے طالبوں کی مدد نہیں کرسکتے اور اپنی منزل اور مقصد حیات کو نہیں سمجھ سکیں گے اس وقت تک نہ ہمارا جمہوری نظام کامیاب ہوسکتا اور نہ ہی مقامی معاشرتی نظام کو آئیدیل بناسکتے ہیں۔ آئیں آج سے ہی حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کے لیے قدم اٹھائیں۔ حقوق اللہ کے لیے مصروف رہتے ہیں تو حقوق العباد کے لیے بھی وقت نکالیں۔ ایسا جب کریں گے ہمارا گھر ہی نہیں بلکہ محلہ، شہر اور ملک بھی سنور کر عملی پاکستان بن جائے گا۔