حوصلہ افزائی اور اسوہ حسنہ

116

مولانا محب اللہ قاسمی

اگر ہم سیرت نبویؐ کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ آپؐ بچپن سے ہی نیک دل، سچے، امانت دار اور بہت سی خوبیوں کے حامل تھے، جس کا چرچا سارے عرب میں تھا۔ ہر شخص کو آپ پر اعتبار تھا، یہی وجہ تھی کہ کفار مکہ آپ کو اچھے القاب سے یادکرتے اور آپ کے محاسن بیان کرتے تھے۔ اطراف مکہ میں بھی اس بات کا چرچا ہونے لگا، جسے سن کر لوگ آپ سے ملنے کے لیے بے چین رہتے۔ اعلان نبوت کے بعد جب اہل مکہ اور سرداران قریش آپ کے دشمن ہوگئے اور آپؐ کے متعلق طرح طرح کی باتیں کرنے لگے تب دوسرے قبیلے والوں میں آپؐ سے ملنے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا۔ یہ سب آپؐ کی ان خوبیوں اور اعمال خیر کے سبب تھا جن کے سارے لوگ قائل تھے۔
نبیؐ نے جب اسلام کا مرکز مدینہ منورہ کو بنایا تو وہاں بھی معاشرے کو بہتر اور اعمال خیر سے آراستہ کرنے کے لیے آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو نہ صرف دین کی تعلیمات سے آراستہ کیا، بلکہ ان کے اچھے کاموں اور خوبیوں کے سبب ان کی تعریف وتوصیف فرمائی اور انھیں اچھے القاب سے نوازا۔ ذیل میںصحابہ کرامؓ کے بعض واقعات بطور نمونہ بیان کیے جارہے ہیں:
سیدنا ابوبکرؓ: جلیل القدر صحابی اور خلیفہ اول ہیں، جن کو ’صدیق‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یعنی تصدیق کرنے والا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہؐ نے ان کو شب معراج کے موقع پر آپؐ کی تصدیق کی وجہ سے یہ خطاب عطا فرمایا تھا۔ جب اہل مکہ نے ابوبکرصدیقؓ کے سامنے نبیؐ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ تمہارے صاحب تو ایک رات میں آسمان کی سیر کرکے آئے ہیں، تو آپؓ نے کہا:
’’میں تو اس سے بھی بڑی خبر کی تصدیق کرتا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس صبح وشام آسمان سے خبر آتی ہے تو میں اسے مان لیتا ہوں‘‘۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی، مصنف عبدالرزاق)
خلیفہ ثانی سیدنا عمر بن الخطابؓ کو نبی کریمؐ نے ’فاروق‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جس وقت آپ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو رسول اللہؐ سے کہا: ہم چھپ کر نماز کیوں پڑھیں جب کہ ہمارا دین حق ہے، ہماری نماز حق ہے، اس دن تمام لوگوں نے خانہ کعبہ میں علانیہ نماز ادا کی۔ سیدنا عمرؓ تاحیات اس لقب کے معنوی اثرات بکھیرتے رہے۔ آپ کے عدل وانصاف کے واقعات معروف ہیں۔ آپؐ کی دلیری، قوت ارادی اور دور رس افکار و خیالات کے سبب رسول اللہؐ نے آپؐ کو یہ اعزاز بھی بخشا: اگرمیرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔
سیدنا عثمان غنیؓ: عثمان بن عفانؓ تیسرے خلیفہ راشد ہیں۔ آپؓ دوالقاب سے مشہور ہیں: ایک ’غنی‘ دوسرے ’ذوالنورین‘۔ مؤخرالذکر لقب کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہؐ کی دوصاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کی زوجیت میں آئیں۔ آپؐ نہایت ہی باحیا، فیاض، محسن، نرم طبیعت اور خوش اخلاق تھے۔ مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ کے پاس پینے کے لیے میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا وہ ایک یہودی کے کنوے سے پانی لیتے تھے، رسول اللہؐ کی ایما پر آپؓ نے وہ کنواں خرید کر عام لوگوں کے لیے وقف کردیا۔ اسی طرح اسلام کی اشاعت میں آپ نے اپنا بہت سارا مال خرچ کیا۔
سیدنا علیؓ: قبول کرنے والوں میں آپ کا نمبر دوسرا ہے۔ آپؓ چوتھے خلیفہ ہیں۔ آپؓ فاتح خیبر کے لقب سے مشہور ہیں۔ نبی کریمؐ نے جنگ خیبر کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا: ’’میں ایک ایسے شخص کو جھنڈا دوںگا جس کے ذریعے اللہ فتح عطا کرے گا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)