پشاور (آن لائن) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی خان نے کہا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی روز اول سے ہی مطالبہ کرتی آرہی ہے کہ بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے سے ہی قوم ترقی کرسکتی ہے، اے این پی نے اپنے دور حکومت میں مادری زبانوں کی ترویج اور بقاء کیلیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے تھے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ 7 سال کے دوران ان اقدامات کو نہ صرف پس پشت ڈال دیا گیا بلکہ اس سلسلے میں کوئی پیش رفت بھی نہ ہوسکی۔ اپنے ایک ٹوئٹ میں اسفندیار ولی خان نے لکھا کہ 18ویں آئینی ترمیم سے پہلے اے این پی نے تجویز دی تھی کہ پشتو، پنجابی، بلوچی، سندھی اور سرائیکی کو قومی زبانیں قرار دیا جائے لیکن بعض سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کی وجہ سے حتمی مسودے سے اس نکتے کو نکال دیا گیا کیونکہ وہ سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ پختونخوا کے نام پر متفق نہیں ہورہی تھیں۔ اسفندیار ولی خان نے مزید لکھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد 2012ء میں پختونخوا حکومت صوبے کی مادری زبانوں کی ترقی کیلیے ریجنل لینگویجز اتھارٹی کا قیام عمل میں لائی۔ 30 مادری زبانوں کے تحفظ، گرائمر اور قاعدے کیلیے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ کمیٹی 2 سال کے اندر اندر پہلی فرصت میں 5 مادری زبانوں کیلیے اسکرپٹ اور قاعدہ تیار کرے گی، اس کمیٹی کی سربراہی سوات کے معروف لکھاری پرویش شاہین کر رہے تھے جنہوں نے ڈیڑھ سال میں 5 زبانوں پشتو، ہندکو، سرائیکی، کوہستانی اور کھوار کیلیے بنیادی اسکرپٹ پر کام مکمل کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ نے مزید لکھا کہ 2012ء ایکٹ کے ذریعے خیبرپختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ نے ڈائریکٹر کریکولم اور ٹیچرز ایجوکیشن کی معاونت سے پشتو زبان کیلیے جماعت اول سے لے کر 12ویں تک نصاب پر کام شروع کیا گیا جو میٹرک تک مکمل ہوگیا تھا تاہم تحریک انصاف حکومت نے باقی ماندہ کام کو روک لیا۔ اسفندیار ولی خان نے لکھا کہ 2012ء سے 2013ء تک 5 مادری زبانوں کا کام مکمل ہوچکا تھا اور اے این پی کی منصوبہ بندی تھی کہ باقی 25 زبانوں کے حوالے سے بھی اسی طرح کام کیا جائے گا لیکن اے این پی حکومت کے بعد ریجنل لینگویجز اتھارٹی، صوبائی حکومت اور وہ کمیٹی جو نصاب کیلیے بنائی گئی تھی غفلت کی نیند سوگئی۔