خود پسنداتائی

368

مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایک خود پسند آدمی ہیں۔ خودپسندی ’’جدھر دیکھتا ہوں میں اُدھر میں ہی میں ہوں‘‘ کا دوسرا نام ہے۔ اپنی اہمیت اور صلاحیتوںکا حد سے بڑھا ہوا احساس اور اپنے آپ میں دلچسپی، یہ خیال کہ میں سب سے اہم ہوں۔ ایک برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینی سن لی کے مطابق ایسے لوگ مغرور اور گھمنڈی ہوتے ہیں۔ ان میں ہمدردی کا احساس کم ہوتا ہے۔ باہمی رشتوں میں یہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا ان کے والد اور بہن بھائیوں سے تعلقات کا جائزہ لیجیے، شادیوں کی ناکامی کی وجوہات پر غور کیجیے یا دوستوں سے اخلاص کا مشاہدہ کیجیے تو ان کی طرز فکر اور عمل میں خودپسندی شدت سے جھلکتی نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کے سفر میں نعیم الحق مرحوم بائیس برس سے ان کے رفیق کار تھے۔ لندن میں وہ عمران خان سے ملے تو پھر عمران خان کے ہوگئے۔ محبت اور رفاقت کا کون سا اسلوب تھا جو نعیم الحق کے معمولات میں نظر نہ آتا تھا۔ وہ دل وجان سے عمران خان کے ساتھ تھے۔ عمران خان کے مخالف انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ عمران خان کی محبت میں وہ لڑائی جھگڑے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے لیکن اس کے باوجود ہر جدوجہد اور ابتلا میں عمران خان کے ساتھ ساتھ نظر آتے تھے۔ عمران خان کے گھریلو معاملات ہوں یا سیاسی وہ پیش پیش رہتے تھے۔ لیکن گزشتہ دنوں ان کا انتقال ہوا تو عمران خان نے ان کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی۔ نعیم الحق کے جنازے میں اور لوگ شریک تھے لیکن عمران خان نظر نہیں آئے حالانکہ انہیں تمام مصروفیات ترک کرکے نعیم الحق کی میت کو کاندھا دینا چا ہیے تھا۔ بلاول نے ایک مرتبہ کہا تھا میری ماں کے تعزیت سبھی جماعتوں نے کی۔ جماعت اسلامی سے ہمارا فکری اختلاف تھا انہوں نے بھی تعزیت کی۔ ایک عمران خان تھے جنہوں نے رسمی تعزیت کرنا بھی گوارا نہیں کی۔
خود پسند افراد دوسروں کو قصور وار ٹھیراتے ہیں لیکن خود وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر دم سراہے جائیں۔ ان سے ان کی غلطی تسلیم کروانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لوگوں سے فائدے اٹھانے میں انہیں مزہ آتا ہے۔ لوگوں کی تکالیف کا احساس کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ خود پسند اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا، بلند اور اعلیٰ ترین سمجھتے ہیں۔ وہ مطلق الانانیت اور مطلق العنانیت کی طرف اس درجہ مائل ہوتے ہیں کہ اپنی کسی کمزوری اور خامی یا ناکامی کو سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اقتدار میں آنے کے بعد جب عمران خان پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی جانب سے تنقید کی گئی تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی اصلاح کرتے، اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے انہوں نے میڈیا پر قدغنیں لگانا شروع کردیں۔ پیپر میڈیا کا یہ حال کیا کہ اخبارات کو ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی مشکل ہوگئی۔ کئی اخبار بند ہوگئے۔ ہزاروں ملازمین فارغ کردیے گئے۔ پرنٹ میڈیا میں مثبت رپورٹنگ کو فروغ حاصل ہوا تو توجہ الیکٹرونک میڈیا پر مرکوز کر دی گئی۔ الیکٹرونک میڈیا کو کنٹرول کرنا بظاہر مشکل لیکن نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ ایک سوئچ آف، چینل بند۔ یہ بھی نہ کیا تو کیبل آپریٹرز کو اشارہ کردیا۔ بہرحال وہ ہتھکنڈے استعمال کیے گئے کہ الیکٹرونک میڈیا بھی تاب نہ لاسکا۔ وہاں بھی مثبت رپورٹنگ شروع ہوگئی۔ ہزاروں ملازمین فارغ، بہت سے پروگرام بند۔ وہ صحافی جو تسلیم کی خو نہ اپنا سکے، نہ صرف متعلقہ چینل سے ان کی چھٹی ہوگئی بلکہ دوسرے چینلز بھی یہ جرأت نہ کرسکے کہ انہیں موقع فراہم کریں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ ان جرأت مند صحافیوں نے سوشل میڈیا کا رخ کرلیا اور سوشل میڈیا پر مختصر دورانیے کے پروگرام شروع کردیے۔ ان پروگراموں کو عوام میں بے حد پزیرائی ملی۔ حقیقت حال جاننے کے لیے لوگوں نے ان پروگراموں کی طرف رخ کرنا شروع کردیا۔ ان پروگراموں کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں جانے لگی۔ دیگر صحافیوں کو بھی ایک راہ ملی۔ انہوں نے بھی دل کے پھپولے پھوڑنے کے لیے سوشل میڈیا پر پروگرام ترتیب دینا شروع کردیے۔ حکومت کی خود پسندی اس کی بھی تاب نہ لاسکی۔ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی وہ ایک ڈریکو لائی قانون سامنے لے آئی۔
پابندی کا جو قانون لاگو کیا گیا ہے وہ سوشل میڈیا کے بول سننے اور سہنے کے مقابل حکومت کے روہانسا ہونے کی علامت ہے۔ یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، واٹس ایپ اور وہ تمام فورم اور کمپنیاں جن کے ذریعے لوگ حکومت سے ماورا ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، معلومات شئیر کرتے ہیں اور دل کا غبار نکالتے ہیں ان پر لازم ہوگا کہ نہ صرف وہ پاکستان میں اپنے دفاتر کھولیں بلکہ سرورز بھی قائم کریں۔ ان سرورز کے اندر موجود ڈیٹا کو حکومت جب چاہے معائنہ کر سکے گی، بلاک کرسکے گی بلکہ کسی بھی شخص کے خلاف کسی بھی شکایت پر کاروائی کرسکے گی۔ یہ کمپنیاں اگر اس ہجوم شوق کی تاب نہ لاسکیں تو پھر پا کستان میں انہیں بند کردیا جائے گا۔ ایک نئی اتھارٹی تشکیل دی جارہی ہے، جس کے بعد سوشل میڈیا کی تمام سرگرمیاں حکومت کے جوتے کی نوک پر ہوں گی۔ جب چاہے انہیں اڑا کر رکھ دے۔ اس اتھارٹی کے پاس اتنی طاقت ہو گی کہ پاکستان کے اندر کسی بھی سوشل میڈیا آپریٹر خواہ وہ کوئی فرد ہو یا کمپنی، اس کے گھر کے اندر گھس کر معلومات حاصل کرسکے، کسی بھی شکایت پر کسی کو بھی بلاک کرسکے۔ مواد کسی بھی قسم کا ہو مزاج یار پر منحصر ہوگا وہی فیصلہ کرے گا کہ فروختنی ہے کہ سوختنی۔ فیس بک، یوٹیوب اور بات چیت کے فورم اور ان کے تحت کام کرنے والے دیگر فورموں پر موجود ڈیٹا اور بات چیت حکومت حاصل کرنے کی مجاز ہوگی۔ ان کمپنیوں پر لازم ہوگا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی جو مواد تیار کیا جارہا ہے اس کو بھی بلاک کرے اور اگر بلاک نہیں کیا تو پچاس کروڑ روپے کی حدتک جرمانہ۔ کوئی بھی شخص کسی کے بھی خلاف شکایت کرسکتا ہے۔ شکایت کنندہ کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، تو ہین اور افواہ پھیلانے جیسی اصطلاحات کے مفہوم کو اتنا وسیع کردیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کی کسی بھی حرکت یا پوسٹ کو جواز بناکر شکایت کی جاسکے گی۔ یہ سب کچھ ہوگا ایک وسیع تر قومی مفاد کے نام پر جس کے تحت حکومت جس پر چاہے گرفت کرسکے گی۔ یہ اتھارٹی مجاز ہوگی کہ ان کمپنیوں پر لازم کرے کہ وہ چھ گھنٹوں سے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر یہ مواد ہٹائے ورنہ جرمانہ۔
حکومت اور اس کے سرپرستوں کی خواہش ہے کہ عوام کی توجہ صرف اور صرف عمران خان کے یونانی دیوتائوں جیسے خدوخال پر مرکوز رہے۔ عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عمران خان پر نظر کرتے ہیں تو ان کے روزمرہ کے خدوخال بکھرنے لگتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر عذابوں نے جن کا اس شدت سے محاصرہ کر رکھا ہے کہ ان کی زندگی جہنم بن گئی ہے۔ حکومت کے خلاف نفرت کا آتش فشاں ہے جو اندر ہی اندر کھول رہا ہے اور کسی وقت بھی سب کچھ بہا کر لے جا سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت ایسے اقدامات کرے جن کے نتیجے میں عوام کو زندگی بھر سہولت میسر آئے۔ آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے کہ اپنی نالائقی کی وجہ سے دو ارب ڈالر قرض کا جو ذلت آمیز طوق ہم نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے، اس کے لیے آپ جس طرح دبائو بڑھاتے چلے جارہے ہیں، اس کے نتیجے میں جو طوفان جنم لے رہا ہے، وہ ہمیں بھی بہا کر لے جائے گا اور آپ کے قرضوں کو بھی۔ تو مہربانی کیجیے ٹیکسوں میں اضافے کے معاملے میں ہاتھ ہولا رکھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس غضب کی چھل اور چھل بل دکھانا عمران حکومت کے بس کی بات نہیں۔ لہٰذا نزلہ بر عضو ضعیف۔ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس پر ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا۔ عمران خان کی خود پسندی اور انا ایک اور محاذ کھول بیٹھی ہے۔ دیکھیں سوشل میڈیا کمپنیاں منہ در منہ ان کا ٹھٹھا اڑاتی ہیں یا منہ پھیر کر ہنسنے پر اکتفا کرتی ہیں۔