معیشت کی تباہی کے ذمے دار

399

فی الوقت پاکستان ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے بچ نکلا ہے لیکن اس پر 4 ماہ کے لیے تلوارلٹکا دی گئی ہے کہ جون تک ٹاسک فورس کے 27 میں سے باقی 13 مطالبات بھی پورے کیے جائیں ورنہ… ظاہر ہے یہ مطالبات عوام کو مزید نچوڑ کر ہی پورے کیے جائیں گے۔ جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کی گرفتاری بھی ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کا ایک حصہ ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے میں اچھی کارکردگی نہیں دکھائی۔ دریں اثنا پاکستان ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنس کر معاشی طور پر تباہ ہو رہا ہے۔اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے پاکستان کی معاشی صورتحال اور برآمدات کی زبوں حالی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی برآمدات ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا دس فیصد بھی نہیں ہیں ۔ اس کم ترین تناسب کے ساتھ پاکستان یمن ، سوڈان اور ایتھوپیا جیسے غریب ممالک کے ساتھ کھڑا ہے ۔رضا باقر نے جو کچھ بھی فرمایا ہے اس پر دو رائے نہیں ہیں مگر یہ بات رضا باقر کے منہ سے جچی نہیں کہ وہ ملک کے مرکزی بینک کے سربراہ ہیں اور مالیاتی و زری پالیسیاں وہی تشکیل دیتے ہیں ۔ گزشتہ ڈیڑھ برسوں میں ملک کی معیشت کو جو دھچکا پہنچا ہے ، اس کی براہ راست ذمہ داری اسٹیٹ بینک ہی پر عاید ہوتی ہے ۔ ملک کی معیشت کو پہلا دھچکا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی خوفناک بے قدری سے لگا اور یہ سب کیا دھرا اسٹیٹ بینک ہی کاہے ۔ اس کے بعد رہا سہا معاملہ سود کی شرح میں بار بار اضافہ تھا جس کی ذمہ داری بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان یا دوسرے معنوں میں رضا باقر پر عاید ہوتی ہے ۔ ان دونوں عوامل نے ملک کو مہنگائی کے سونامی میں غرق کردیا جس کے بعد ملکی معیشت بیٹھتی ہی چلی گئی ۔ رضا باقر آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم ہیں اور ڈیپوٹیشن پر پاکستان میں مرکزی بینک کے سربراہ کی اہم پوزیشن پر تعینات ہیں ۔ انہیں پاکستان میں آئی ایم ایف کا نمائندہ بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ پاکستان آنے سے قبل رضا باقرمصرمیں تعینات تھے اور انہوں نے وہاں پر بھی وہی کچھ کیا تھا جو وہ پاکستان میں کررہے ہیں یعنی مصری کرنسی کی ڈالر کے مقابلے میںسو فیصد بے قدری اور بینکوں کے شرح سود میں زبردست اضافہ ۔ ان عوامل کے سبب مصر میں نہ صرف مہنگائی نے تباہی پھیلادی بلکہ عوامی سطح پر بھی بے چینی پیدا کی ۔ رضا باقر بتائیں کہ دنیا کی مہنگی ترین بجلی ، گیس کے ساتھ کون سی صنعت پنپ سکتی ہے ۔ جس ملک کی زراعت کا دارومدارہی درآمدی کھاد، زرعی ادویات اور بیج پر ہو ، وہاں پر اگردرآمدی اشیاء سو فیصد مہنگی ہوجائیں تو پھر ملک میں زرعی شعبہ کس طرح سے اپنے پاؤں پر کھڑا رہ سکے گا ۔ رضا باقر کی سربراہی میں پاکستانی بینک محض اجناس کی ذخیرہ اندوزی کے لیے اربوں روپے قرض کی صورت میں مہیا کررہے ہیں تو پھر اجناس کی قیمتیں کس طرح کم ہوسکیں گی ۔ پاکستان میں اس وقت معیشت کی تباہی کی براہ راست ذمہ داری رضا باقر پر اور انہیں لانے والوں پر ہی عاید ہوتی ہے ۔ چین کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے جہاں پر برآمدات پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہیں اور پہلے پانچ سال صنعتوں کے لیے بجلی مفت ہے ۔ صرف مزدور سستا ہونے سے صنعتیں نہیں پنپتیں، بلکہ اس کے لیے جامع اور موثر معاشی اور زری پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سستے مزدور تو افریقا میں بھی دستیاب ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے بجائے صنعتیں یورپ ، چین اور کوریا جیسے ممالک میں پنپ رہی ہیں ۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں صنعتوں پر بے حد و حساب ٹیکس نہیں ہیں بلکہ افراد پر ٹیکس ہے ۔ جب فرد کمائے گا تواسے ٹیکس ادا کرنے میں کوئی عار نہیں تاہم اگر کوئی شخص بے روزگار ہو اور اس سے آٹے ، دال اور چاول پر ٹیکس مانگا جائے ، بجلی کے بل کا 70 فیصد ٹیکس پر مشتمل ہو تو پھر ردعمل تو ہوگا۔ رضا باقر سارے حالات سے باخبر ہیں انہیں تو ان موضوعات پر گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے ۔وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں اپنے آقاؤںکی ہدایت کے عین مطابق کررہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں پاکستانی عوام کے سروں پر مسلط کرنے والوں کا احتساب کوئی کیوںنہیں کرتا ۔ یہ آج کی بات نہیں ہے ضیاء دور کے ڈاکٹر محبوب الحق ،معین قریشی ، شوکت عزیز، حفیظ شیخ ، سلمان شاہ ، ڈاکٹر عشرت حسین سے لے کر رضا باقر تک کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے پاکستان کا یہ حال کیا ہے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ بیماری کے علاج کے لیے پہلے بیماری کی وجہ کو دور کرنا ہوگا ۔ جب تک اہم اسامیوں پر آئی ایم ایف کے کارندے اور ایجنٹ براجمان رہیں گے ، اس وقت تک ملک کی معاشی ترقی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔ بہتر ہوگا کہ ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے ٹیکس کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور صنعتوں پر ٹیکس کے بجائے افراد پر ٹیکس لگانے کی پالیسی اختیار کی جائے ۔ اسی طرح درآمدات کو زہر نہ سمجھا جائے۔ سنگاپور ، دبئی ، جاپان اور چین سمیت دنیا کے کئی ممالک درآمدات کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی برآمدات کو ۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا درآمد کیا جانا چاہیے اور کیا ہو رہا ہے اس پر نظر رکھنی ہوگی۔