شاہد محی الدین
الف: ریاست کے لیے ہندوستان کی پارلیمنٹ کو ریاست کے حکومت کی اتفاق کے ساتھ صرف ان معاملات پر قانون سازی کے اختیارات ہوں گے جو ریاست کے الحاق میں یونین لسٹ اور کنکرنٹ لسٹ میں شامل کردیے گئے ہیں، اس کے علاوہ پارلیمنٹ کا کوئی بھی قانون ریاست جموں و کشمیر پر نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
ب: دوسرے ایسے معاملات جو ریاست کی حکومت کے اتفاق سے اور صدر ہند کے حکم نامے سے منظور کیے جائیں۔
شق 1 (C) میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ دفعہ 370 کے ذریعے ہی ہندوستان کے آئین کی پہلی دفعہ کا اطلاق کشمیر پر ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ دفعہ 370 ہٹ جانے کے بعد کشمیر قانونی طور پر ہندوستان سے الگ ہوجاتا ہے۔
دفعہ 35-A کے مطابق… آئین ہند میں موجود ہونے کے باوجود ہر کوئی قانون جو ریاست میں نافذالعمل ہو ریاست کے اسمبلی کا کوئی بھی نافذ شدہ قانون جو۔
1: کسی فرد یا طبقہ کے مستقل باشندہ ہونے کی وضاحت کرتا ہو۔
2: کسی بھی فرد کو حسب ذیل معاملات میں ایسے حقوق اور ایسے استحقاق عطا کرتا ہو یا کسی فرد کے اوپر قدغنیں اور پابندیاں عائد کرتا ہو
الف: سرکاری نوکری کے معاملے میں۔
ب: غیر منقولہ ملکیت کے حصول کے لیے۔
ج: ریاست میں رہائش کے لیے۔
د: حقوق، وظیفہ اور دیگر ایسی سرکاری امداد و مراعات کو اس بنیاد پر باطل اور کالعدم قرار دیا جائے گا کہ یہ مستقل باشندوں کے حق سے متضادم ہے یا اس بنیاد پر کہ یہ ان کے کسی حق کو چھین لیتا ہے یا نقصان پہنچاتا ہے۔
اس سے پتا چلا کہ 35 اے کے مطابق کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ ریاست جموں و کشمیر میں سرکاری نوکری کے لیے امید وار نہیں بن سکتا نہ ہی رہائش کے لیے یہاں کی زمین خرید سکتا۔ یہ اس لیے کہ اسے ریاست کی تہذیب، ثقافت، تمدن، آبادی کا تناسب اور شناخت وغیرہ تبدیل ہوسکتی ہے اور نہ ہی سرکاری امداد و مراعات اور دیگر ایسی سرکاری پیش رفت کو لوگوں کی مرضی کے بغیر ریاست جموں و کشمیر کی حدود کار میں لایا جاسکتا تھا جسے لوگوں کو تعمیر و ترقی کے نام پر کسی قسم کا خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔ نیز یہ بھی پتا چلا کہ 35 اے کے مطابق غیر ریاستی شہری سے بیاہی جانے والی کشمیری عورت ملکیتی حقوق سے محروم ہوجاتی ہے۔ اصل اور واضع حقیقت نہ ہی وہ ہے جو عصر حاضر کی مرکزی سرکار لوگوں کو سمجھانے کی کوشش میں لگی ہے اور نہ ہی چند مخصوص طبقات کے خدشات کہ ’’ترقی کی راہوں میں رکاوٹ دراصل آرٹیکل 370 ہے‘‘۔ اگر ایسا ہوتا تو اسپیشل اسٹیٹس نہ ہونے کے باوجود بہار، گجرات، اتر پردیش اور دیگر کئی ریاستیں معاشی طور پر ریاست جموں و کشمیر سے پسماندہ نہ ہوتیں۔ ریاست جموں و کشمیر کے پسماندہ ہونے کی سب سے بڑا وجہ یہ ہے کہ مرکزی سرکار لوگوں کے دل جیتنے اور امن و امان (جس کی تلاش کے لیے یہاں کی عوام صدیوں سے ترس رہے ہیں) کو قائم کرنے میں ہمیشہ ناکام و نامراد رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست اور مرکزی سرکار کے تعلقات کو واضع کرنے کے لیے ایک طرف دفعہ 370 کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا۔ اور دوسری طرف 35 اے کو آئین میں لانے کا مقصد ریاستی باشندوں کو خصوصی تحفظ فراہم کرنا مطلوب و مقصود تھا۔ اصل میں 35 اے دفعہ 370 کا ہی جزو لاینیفک ہے یا یوں کہیں گے کہ دفعہ 370 اور 35 اے ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔
35 اے کو ہٹانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ریاست کی تہذیب و تمدن ثقافت، سیاست، مذہب اور شناخت کو ہر سمت سے خطرہ لاحق ہے۔ سرکاری نوکریاں تمام ہندوستانی باشندوں کے لیے قانونی طور پر جائز قرار دی جا چکی ہیں۔ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ بھی جتایا جارہا ہے۔ مرکزی سرکار کا یہ دعویٰ کہ دفعہ 370 کی برخواستی ریاست جموں و کشمیر کے لیے خوش آئند قدم ہے آگے جاکر چند سال ہی میں پتا چل جائے گا کہ اس کو ہٹانے کا اصل مقصد کیا تھا۔ بہت سارے صحافیوں، تجزیہ نگاروں، ماہرین، قانون دان اور سیاست دانوں نے اس قدم کو تشویش سے تعبیر کیا اور چند نے اس قدم کو ریاست کی تعمیر و ترقی سے تعبیر کیا۔ مرکزی سرکار کی نیت کیا ہے یہ تو خدا ہی جانتا ہے لیکن ریاست کے باشندوں کو چوکس اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ہمارے جذبات اور احساسات کی لاج رکھی جائے تاکہ ہم بھی تاریکیوں کے اس دور سے نکل کر امن و آشتی اور پوری آزادی اور حقوق انسانیت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ (میری بہن لالی کے نام جس نے میرے دل سے بہن نہ ہونے کا بوجھ ہلکا کر دیا)۔