ہندوستان میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے

185

برصغیر پاک و ہند کی سرزمین پر بھارت کے وجود میں آنے سے 23 سال قبل قائم کی جانے والی راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اپنے قیام کے 95 سال بعد اپنے نظریات اور مشن کے مطابق سرگرم ہوکر اور بھارت میں افراتفری پھیلا کر بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) ہی نہیں بھارتی ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی نیندیں اڑاچکی ہے۔ تاہم اس ہندو گروہ کے جلد ہی خاتمے کے اشارے ملنے لگے ہیں۔ مہاتما گاندھی کے نظریہ سے مختلف سوچ رکھنے والی آر ایس ایس کے اشارے پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی وہاں جن نئے قوانین کا نفاذ کرکے جس طرح کی بے چینی اور بے یقینی کی فضاء پیدا کرچکے ہیں اس کے نتیجے میں بھارت میں ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے بجائے الحمدللہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے گونجنے لگے ہیں۔ یہ نعرے کسی مسلمان یا مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ ہندوؤں کی جانب سے لگائے جارہے ہیں۔ جبکہ دلچسپ حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان زندہ باد کے نعروں کی وطن پرست مسلمانوں نے مخالفت کی اور انہیں روکا۔
ایسا ہی تازہ واقع بھارت کے جنوبی شہر بنگلور کے فریڈم پارک میں 20 فروری کی شب بھارت کے نئے قانون کے خلاف ہونے والے جلسے کے اختتام پر ہوا۔ جہاں ایک نوجوان غیر مسلم لڑکی امولیہ لیونا اسٹیج پر پہنچی اور اس نے ڈائس پر آکر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا جس کا حاضرین کی اکثریت نے جواب بھی دیا۔ لیکن اسٹیج پر موجود مسلمان رہنما اسد اویسی نے لڑکی کو ایسے نعرے لگانے سے نہ صرف منع کیا بلکہ اس سے مائیک لے کر اسے اسٹیج سے اتارنے کی بھی ہدایت کی۔ جب کالج کی مذکورہ طالبہ نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا تو اس وقت اسد اویسی نماز کے لیے اسٹیج سے اترنے کے لیے کھڑے ہوکر آگے بڑھ چکے تھے۔ لیکن وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے سنکر رک گئے اور واپس ڈائس کی طرف جاکر اویسی لڑکی کو ایسی نعرے بازی کرنے سے سختی سے روک دیا۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے نعرہ لگانے والی طالبہ کو گرفتار کر لیا بعدازاں اس 18 سالہ طالبہ امولیہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ بیس فروری کی شب شہریت سے متعلق نئے قانون کے خلاف احتجاج کے لیے بنگلور کے فریڈم پارک میں ایک جسلہ ہورہا تھا جس میں شرکت کے لیے کالج کی طالبہ امولیہ لیونا بھی پہنچیں اور انہوں نے اسٹیج پر آتے ہی پہلے پاکستان زندہ باد اور پھر ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگوانے شروع کیے۔ ایسا کرنے پر انہیں پہلے روکا گیا اور پھر ان کے ہاتھ سے مائیک چھین کر پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔ سچ تو یہ ہے کہ امولیہ لیونا پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوانے لگی تو اسد اویسی نے انہیں روکا اور کہا کہ ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائیں۔ جس پر امولیہ نے ہندستان زندہ باد کے بھی نعرے لگائے۔ امولیہ کو چودہ روز کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے اور پولیس ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ایک سینئر پولیس افسر بی رمیش نے اس کارروائی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ نعرے لگوانے والی طالبہ کے خلاف
بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ امولیہ کے خلاف پولیس کی کارروائی کے دوران امولیہ کے والد نے پولیس سے یہ شکایت کی ہے کہ اس واقعے کے بعد بعض افراد نے ان کے گھر میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے اس سلسلے میں سخت گیر ہندو تنظیموں سے وابستہ کچھ لوگوں کے خلاف کیس درج کر لیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بنگلور میں ہونے والے اس جلسے میں حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی رہنما اسدالدین اویسی بھی موجود تھے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو مسٹر اویسی اسٹیج پر تھے اور وہ یہ کہتے ہوئے مائیک چھیننے کے لیے آگے بڑھے کہ ’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں‘‘۔ پولیس نوجوان طالبہ کو پکڑ کر اسٹیج سے نیچے لے گئی۔
اس کے بعد مشتعل اویسی نے ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگوائے اور کہا، ’’ہم کسی بھی طرح دشمن ملک پاکستان کی حمایت نہیں کرتے ہیں، منتظمین کو انہیں یہاں آنے کی دعوت نہیں دینی چاہیے تھی، اگر مجھے اس صورت حال کا اندازہ ہوتا تو میں یہاں آتا ہی نہیں، شہریت سے متعلق قانون کے خلاف ہماری تمام کاوشوں کا مطلب بھارت کو بچانا ہے‘‘۔ لیکن بی جے پی نے اویسی کی وضاحتوں کو مسترد کردیا۔ پارٹی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’بنگلور میں آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کی موجودگی میں لیونہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس کی قیادت میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج پاکستان اور ملک مخالف فورسز کا مشترکہ منصوبہ ہے، جو پاکستان کے حامی ہیں انہیں ہمیشہ کے لیے وہیں چلے جانا چاہیے۔
جبکہ امولیہ کے والد کا کہنا تھا کہ ’’ان کی بیٹی نے، جو کچھ بھی کہا وہ غلط ہے۔ وہ بعض مسلمانوں کے ساتھ ہوگئی ہے اور میری باتیں سن نہیں رہی ہے‘‘۔ اس سے قبل امولیہ نے اپنی مادری زبان کنڑ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک زبردست تقریر کی تھی جس کے سبب وہ سرخیوں میں آگئیں ہیں۔
بظاہر یہ واقعہ پاکستان کی حمایت اور بھارت کے اندر ہندو لڑکی کی جانب سے ہندوستان کی مخالفت کا نظر آتا ہے۔ لیکن جائز لیا جائے تو یقین ہونے لگتا ہے کہ یہ صرف کٹر ہندو پرست وزیراعظم نریندر مودی اور ان حکومت کی نفرت انگیز پالیسیوں کے خلاف ہے۔ اس واقعے کے دوران بھارت کے لوگوں کو یہ بھی ثبوت ملا کہ مسلمان اور ان کے لیڈر نہ ہندوؤں کے خلاف ہیں اور نہ ہی ہندوستان کے خلاف۔ وہ تو مسلمان ہونے کے باوجود پاکستان کو بھارت کا دشمن ملک سمجھتے ہیں۔
عام خیال ہے کہ بنگلور کے فریڈم (آزادی) پارک میں ہونے والے اس جلسے کو کٹر ہندوؤں کی جانب سے ایک سازش کے تحت مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خونیں ہنگامے کرانے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ کیونکہ اس سے پرامن حیدرآباد دکن اور قرب و جوار ہنگامہ آرائی کی لپٹ میں آجاتا اور سازشی عناصر کے مقاصد پورے ہوجاتے۔ مگر خوش قسمتی سے اسد اویسی کی وہاں موجودگی اور ان کی اسلامی تعلیمات سے آشنائی نے انہیں اس سازش کو سمجھتے ہوئے نعرے لگوانے والی لڑکی کو سختی سے روکنے پر مجبور کیا۔ جس کے نتیجے میں وہاں ہندو مسلم فساد کی سازش ناکام ہوگئی۔ اس واقعے سے تمام بھارتی باشندوں خصوصاً ہندوؤں کو جان لینا چاہیے کہ کون ہے جو ہندوستان کو نقصان پہنچانا چاہے ہیں، کٹر ہندو لیڈر یا مسلمان راہنما؟