چین سے آنے والے درآمدی کنسائمنٹس کو پاکستان کی بندرگاہوں پر روک لیا گیا ہے،آغا شہاب
درآمدکنندگان کے لیے خصوصی پالیسی وضع کی جائے، وائرس مزید 20 سے زائد ملکوں میں پھیل گیا ہے
کراچی (اسٹاف رپورٹر)کراچی چیمبر آ ف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) کے صدرآغا شہاب احمد خان نے وزارت بحری امور، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ کرونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے چین سے درآمدات پر پابندی عائد کیے جانے سے مختلف اشیاءاور اجناس کے درآمدکنندگان شدید مالی نقصانات سے دوچار ہیں لہٰذا ان درآمدکنندگان کو بچانے کے لیے خصوصی پالیسی وضع کی جائے۔کے سی سی آئی کے صدر نے ایک بیان میں متعلقہ حکام کو نوٹیفیکیشن جاری کرنے پر زور دیا
جس میں پورٹ حکام اور تمام ٹرمینل آپریٹرزکو ہدایت کی جائے کہ وہ چین سے پاکستانی بندرگاہوں پر پہنچنے والے ان کنسائمنٹس پر ڈیمرج اور ڈی ٹینشن عائد کرنے سے گریز کریں جو اب تک کلیئر نہیں ہوئے ہیں جبکہ اگر پہلے ہی کچھ کنسائمنٹس پر ڈیمرج اور ڈی ٹینشن لگایا گیا ہے تو اسے فوری طور پر ختم کیا جائے جس کا تاجر برادری تہہ دل سے خیر مقدم کرے گی۔انہوں نے کہاکہ کئی درآمدکنندگان نے کراچی چیمبر سے تعاون کی درخواست کرتے ہوئے بتایا ہے کہ چین میں کرونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے چین سے آنے والے ان کے درآمدی کنسائمنٹس کو پاکستان کی بندرگاہوں پر روک لیا گیا ہے۔
کرونا وائرس نے صوبہ ہوبی کے دارالخلافہ ووہان کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں جبکہ یہ وائرس مزید 20 سے زائد ملکوں میں پھیل گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ متعلقہ درآمدکنندگان کو درآمدات سے متعلق دستاویزات نہیں ملیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وائرس سے متاثرہ چین سمیت دیگر ملکوں سے انہیں کوئی پارسل نہیں موصول نہیں ہوا جس سے مذکورہ درآمدکنندگان کے لیے بروقت دستاویزی شرائط کو پورا کرنا دشوار ہو گیا ہے جو درآمدی اشیاءکی کلیئرنس کے لیے درکار ہے لہٰذا ان کے کنسائمنٹس بندرگاہوں پر رک گئے ہیں جس کے نتیجے میں انہیںاضافی ڈیمرج اور ڈی ٹینشن چارجز کا سامنا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اس مہلک وائرس سے بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں لیکن درآمدکنندگان کو سزا نہیں دی جانی چاہیے اور پریشان حال تاجروں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ڈیمرج و ڈی ٹینشن معاف کیا جائے۔
انہوںنے کہاکہ پاکستان اور چین کے مابین مجموعی باہمی تجارت 12ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور اب تک 6ارب ڈالر کا لین دین ہو چکا ہے لیکن موجودہ مالی سال کے اختتام پر تجارت زوال پزیر ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا 12ارب ڈالر تک پہنچنا مشکل ہے ۔انہوںنے کہاکہ کرونا وائرس کا پھیلنا مقامی صنعت کے لیے ایک موقع ہے کیونکہ ہمیں اس امکان پر غور کرنا ہوگا کہ ہم خود کیا تیار کرسکتے ہیں جو تجارت معطل ہونے سے قبل چین سے درآمد کیا جارہاتھا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سے متصل کچھ ملکوں سمیت دنیا کے بہت سارے ملکوں میں یہ مہلک وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے
لہٰذا اس جان لیوا وائرس سے ہمارے ملک کو بچانے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ متعلقہ محکمے صورتحال کی نزاکت کا احساس کریں گے اور بندرگاہ حکام پر زور دیں گے کہ درآمدکنندگان کو جلد از جلد ریلیف فراہم کرنے کے لیے ڈیمرج اور ڈی ٹینشن کا مطالبہ نہ کریں جن درآمدکنندگان کا مال چین سے آچکا ہے جس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔