پولیو سے زیادہ خطرناک امراض

323

تویوںپولیو کے خلاف حکومت پاکستان جس طرح متحرک ہے اور جنگی بنیادوں پر ایک ایک بچے کو پکڑ کر ہر ماہ پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جارہے ہیں ، اس سے لگتا ہے کہ پاکستان کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں اور اب صرف ایک پولیو کا مسئلہ بچا ہے جس کو ختم نہ کیا گیا تو پورا پاکستان کسی بھی وقت انتہائی خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے ۔ روز ایک خبر جاری کی جاتی ہے کہ پولیو کا ایک اور کیس دریافت ہوگیا ۔ اس خبر کو پورا قومی برقی میڈیا انتہائی اہتمام کے ساتھ نشر کرتا ہے اور اتنے ہی اہتمام کے ساتھ پرنٹ میڈیا بھی اسے چھاپتا ہے ۔ پورے پاکستان میں ایک لاکھ 65 ہزار سے زاید ایڈز کے مریض ہیں جو جاں لیوا مرض ہے ۔ایک تخمینے کے مطابق سالانہ پانچ ہزار افراد پاکستان میں ایڈز کے مرض کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھورہے ہیں ۔ ہوا میں آلودگی سے ہر برس پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ افراد اپنی جان سے جاتے ہیں ۔ اس سے بھی خوفناک اعدادوشمار ملیریا ، ہیپا ٹائٹس اورغربت کے سبب اموات کے ہیں مگر پولیو سے ملک میں ایک بھی موت واقع نہیں ہوئی ۔ اس کے باوجود حکومت کی ساری توجہ پولیو کے قطرے پلانے پر ہی ہے ۔پولیو کے قطرے پلانا بھی متنازع ہے ۔ پوری دنیا میں پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی ہے کہ اس میں پولیو کے زندہ جراثیم موجود ہوتے ہیں اور یہ فضلے میں بھی خارج ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں پولیو کے جراثیم کو ڈھونڈھنے کا یہی طریقہ ہے کہ سیوریج کے پانی کے نمونے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں حال ہی میں ایسے پانچ بچوں میں پولیو کا مرض تشخیص کیا گیا ہے جنہیں پولیو کے قطرے پینے کی وجہ سے یہ مرض لاحق ہوگیا ہے ۔ پاکستان کو پولیو کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا گیا ہے جس کی آڑ میں ہر اہم مسئلے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ پاکستان کے اہم ترین مسائل میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے روزگاری ، امن و امان کے ساتھ گھٹتی ہوئی صحت و تعلیم کی سہولیات ہیں مگر حکومت کی ساری توجہ اور سارے ہی فنڈز صرف پولیو ویکسین کے متنازع قطرے پلانے تک ہی محدود ہے ۔ پیر کے جسارت میں ہی خبر شائع ہوئی ہے کہ ایک شہری عزیز الرحمن کا بیٹا اور بھانجا پولیو کے قطرے پینے کے بعد بیمار ہوگئے ۔ جب ان کے ہاں دوسرے بچے کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے ٹیم گئی اور انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا پولیو کے قطرے پینے کے سبب بیمار ہوگیا ہے ، اس لیے وہ پولیو کے قطرے نہیں پلواسکتے تو پولیو ٹیم نے اس پر بھی اصرار کیا اور بعد میں ڈپٹی کمشنر کراچی غربی نے ان کے گھر پر نوٹس بھجوادیا اور اب تک رینجرز اور پولیس ان کی گرفتاری کے لیے دو بار چھاپے مارچکی ہے ۔ جب عالمی ادارہ صحت اس بات کو تسلیم کررہا ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے کی وجہ سے پولیو کی بیماری مزید پھیل بھی سکتی ہے اور اس کے دوسرے سائیڈ افیکٹ بھی ہیں تو حکومت کیوں قطرے پلانے پر مُصر ہے ۔ پولیو کے قطروں میں آخر ایسا کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بچوں کو نہ پلوائے تو اسے گرفتار کرلیا جائے ۔ ہر دوا کی اپنی ایک خوراک ہوتی ہے ۔ پوری دنیا میں پولیو کی ویکسین کے انجیکشن بھی ایک ہی بار لگائے جاتے ہیں تو پھر پاکستان میں کیوں کم سن اور شیر خوار بچوں کو یہ مہلک دوا ہر ماہ زبردستی پلائی جاتی ہے اورپھر کہا جاتا ہے کہ اس کے کوئی مضر اثرات نہیں ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ا س بارے میں پاکستان کے ڈاکٹروں اور فارماسسٹ کو تحقیق کرنی چاہیے ۔ پڑوسی ملک بھارت کی اس بارے میں کئی تحقیق موجود ہیں ، جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ پڑوسی ملک بھارت ہی کی تحقیق کے مطابق پولیو سے ملتی جلتی بیماری ہوتی ہے جسے پولیو میں شما رنہیں کرنا چاہیے ۔ پاکستان کی تو یہ صورتحال ہے کہ ڈاکٹر ہوں یا انتظامیہ ، ہر شخص مکھی پر مکھی مارنے پر مصر ہے ۔ پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس پاکستان کی ایسی کوئی سند موجود نہیں ہے کہ پولیو کے قطرے مضر صحت نہیں ہیں ۔ ایک لیبارٹری نے یہ سند دی تھی مگر اس کے متعلقہ افسر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سے اس کا ریکارڈ ضائع ہوچکا ہے ۔ آخر حکومت ان بیماریوں کے علاج کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتی جن سے پاکستان میں لاکھوں افراد جان سے جارہے ہیں ۔ اگر صرف پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہی کو یقینی بنالیا جائے تو ملک سے نہ صرف پولیو بلکہ ہیپاٹائٹس کی ساری اقسام ، گیسٹرو، ہیضہ اور اس طرح کی دیگر بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہے ۔ اگر سیوریج کے پانی کی نکاسی کے نظام کو درست کرلیا جائے تو نہ صرف ملیریااور فلو سے بچا جاسکتا ہے بلکہ کئی سو ارب روپوں کی قیمتی سڑکوں کو ٹوٹنے سے بھی بچایا جاسکتا ہے ۔ اگر حکومت اس جانب توجہ کرے تو نہ صرف ملک سے پولیو جیسی بیماری کا ازخود خاتمہ ہوجائے گا بلکہ شہریوں کا معیار زندگی بھی بلند ہوگا ۔ اس سلسلے میں متعلقہ اداروں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ان اداروں کی غفلت کی وجہ سے ہر جانب گٹر بہتے نظر آتے ہیں اور یہ محض فنڈز خورد برد کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں ۔ عالمی مانیٹرنگ ادارے کی رپورٹ ہے کہ پاکستان میں پولیو کیسز کا دوبارہ اُبھرنا غیر فعال ٹیم ورک اور عدم سیاسی اتفاق کا نتیجہ ہے۔ پولیو پروگرام کو ناکام قرار دیتے ہوئے اس کی وجوہات میں خوفزدہ ماحو ل ناکافی مشاورت ، عدم تعاون ، اندرونی رسہ کشی اور ایک ٹیم بن کر کام نہ کرنا شامل ہیں ۔ خوف زدہ ماحول اور عدم تعاون کی بنیاد ی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس پروگرام اور پولیو ویکسین پر اعتبار ہی نہیں ۔