الوداع فصیح الرحمن

232

ابھی محترم جناب ادریس بختیار اور مسعود ملک کی وفات کا غم نہیں بھلا پائے تھے کہ فصیح الرحمن بھی چلے گئے۔ ادریس بختیار نے اپنی وفات سے چند روز قبل دوستوں کی ایک محفل میں بات کی تھی کہ آج کل میڈیا میں حالات یہ ہیں کہ مالکان کے ہاتھوں کارکن کی عزت نفس بھی محفوظ نہیں رہی۔ ادریس بختیار، مسعود ملک اور اب فصیح الرحمن اسی کیفیت کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں یہ تینوں بہت قیمتی لوگ تھے رضوان خان (ماموں) نے اطلاع دی کہ فصیح الرحمن انتقال کرگئے ہیں، بالکل بھی یقین نہیں آیا‘ لیکن رضوان ایسا دوست نہیں ہے کہ وہ اس طرح کا مذاق کرتا۔ فصیح الرحمن‘ رضوان خان‘ قاضی ظفر اقبال کے ساتھ مجھے حج پر جانے کا اتفاق ہوا تھا‘ ہمارے ساتھ لاہور سے اشرف ممتاز اور نوائے وقت ہارون آباد کے ایک رپورٹر بھی تھے‘ ہم انہیں چچا کہتے تھے، یہ نام بھی انہیں فصیح الرحمن ہی نے دیا‘ کسی کے بارے میں جاننا ہو تو کہتے ہیں کہ سفر ایک بہترین ذریعہ ہے کہ آپ کسی کی شخصیت سے متعلق جان سکیں‘ فصیح الرحمن واقعی ایک دوست اور نیک صفت انسان تھے۔ مرحوم اقبال احمد خان‘ سابق وزیر قانون‘ کے ساتھ میری بہت اچھی یاد اللہ تھی‘ وہ بھی بہت ہی مہربان انسان تھے‘ اللہ ان کی مغفرت فرمائے‘ آمین۔
خان صاحب رشتہ میں فصیح کے خالو تھے‘ فصیح الرحمن سے میری دوستی حج سے پہلے سے تھی لیکن حج کے سفر نے ہمیں ایک دوسرے کے بہت ہی قریب کردیا‘ میرے دوست سجاد سرور اور عمران شبیر عباسی سے ان کی ایک ہی ملاقات تھی لیکن اس پہلی ملاقات ہی میں فصیح الرحمن خان نے انہیں اپنا گرویدہ بنالیا تھا‘ فصیح کے انتقال پر عمران شبیر عباسی نے باقاعدہ مجھ سے تعزیت کی۔ فصیح الرحمن اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے بچپن سے جوانی تک کا عرصہ اس نے والدین کے ساتھ دبئی میں گزارہ وہیں پر تعلیم حاصل کی اور پھر اس کے والد ملک محمد ارشد وطن واپس آگئے‘ دبئی میں شاید ان کے والد محترم کی دوستی اور ذاتی تعلق محمد اعجاز الحق کے ساتھ بھی قائم ہوا‘ اتفاق یہ ہے کہ جب ہم نے حج کیا‘ پاکستام مسلم لیگ (ض) کے صدر محمد اعجاز الحق اس وقت مذہبی امور کے وفاقی وزیر تھے‘ مرحوم وکیل خان‘ سیکرٹری حج تھے اور شاہد خان ڈائریکٹر حج مکہ تھے حج میں ہمارے ساتھ میرے کزن راشد لطیف تھے‘ مکہ‘ مدینہ‘ مزدلفہ‘ منیٰ اور عرفات میں ہم اکٹھے رہے۔
فصیح الرحمن کو کبھی میں نے غصے میں نہیں دیکھا تھا‘ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے اور ان میں دوسروں کے کام آنے کی خوبی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ منیٰ میں ہمیں‘ بلکہ ہمارے ’’چچا‘‘ کو وہاں ایک سینئر جرنلسٹ‘ جو آج کل اے پی این ایس کے سینئر رکن ہیں‘ نے بہت تنگ کیا اور دوسرے عازمین حج سے کمبل تکیے وغیرہ چھین کر انہیں تکلیف پہنچائی تو ہم میں سے فصیح نے سب سے پہلے بہت ہی اچھے الفاظ میں انہیں سمجھادیا‘ ہم سب کا ان کے لیے یہی کہنا تھا‘ یہ جگہ لڑنے اور جھگڑنے کی نہیں‘ ہاں البتہ اسلام آباد پہنچ جائیں تو جتنا جی میں آئے لڑلیں‘ بس یہ بات سننے کے بعد وہ صاحب‘ وہ دن اور آج کا دن‘ آج تک خاموش ہیں‘ انہیں وہ پیغام جو ہم دینا چاہتے تھے‘ بہت ہی اچھی طرح مل چکا تھا‘ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہوا‘ فصیح بھائی تو بہت ہمت والے تھے‘ شاید ان کے والد‘ والدہ محترمہ اور ہمشیرہ کے انتقال نے انہیں اندر سے توڑ دیا تھا۔ انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز لاہور سے کیا تھا ہمایوں اختر خاں ان دنوں تجارتی سرگرمیوں کی کوریج کے لیے ایک انگلش ہفتہ وار میگزین شائع کرتے تھے سابق وفاقی وزیر اقبال احمد خاں نے فصیح الرحمان کو ہمایوں اختر خاں کے ساتھ منسلک کرا دیا مگر فصیح مطمئن نہیں تھے اس کے بعد وہ ’’دی نیشن‘‘ میں بطور ٹرینی رپورٹر آئے فصیح بلاشبہ بہت باصلاحیت تھے جلد ہی اس پیشے میں اپنی پہچان اور اپنا مقام بنا لیا اس کے بعد وہ ’’دی نیوز‘‘ میں چلے گئے اس کے بعد ’’جیو‘‘ کی پہلی ٹیم کا حصہ بن گیا اور اس کے بعد وہ دنیا ٹی وی میں چلے گئے‘ یہاں ان کی ملاقات چاچا اسلام بانا سے ہوئی‘ چاچا بانا سے وہ بہت ہی بے تکلف تھے بعد میں وہ ایکسپریس نیوز میں آئے‘ آب پارہ میں اس کا باقاعدہ فتر بنوایا‘ اسٹوڈیو بنوایا‘ بہر حال اس کے لیے انہوں نے بہت محنت کی‘ لیکن کوئی سیٹھ کسی کارکن کی محنت کا ثمر نہیں دے سکا اور نہ سکتا ہے‘ سیٹھوں نے ہی صحافت کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ فصیح الرحمن ’’دی نیشن اسلام آباد‘‘ بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی کام کرتے رہے کچھ عرصہ پہلے ہی انہوں نے ڈیلی ٹائم کو جوائن کیا تھا اور اس عرصے میں وہ یکے بعد دیگرے اپنے والد اور والدہ کے انتقال کا صدمہ برداشت کر چکا تھا جن کی میتیں اٹھا کر وہ لاہور لے کر گئے دو سال قبل اس کی بڑی بہن انیقہ بھی ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئیں جس کے بعد فصیح الرحمن کی ساری شوخیاں ہی ختم ہوگئیں مگر وہ بچوں کے لیے بہت فکر مند رہتے تھے اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کی حفاظت فرمائے‘ اور ہر قسم کی مصیبتوں سے محفوظ رکھے‘ آمین۔ فصیح کے بارے میں ابھی تک یقین نہیں آرہا مگر آج وہ لاہور میں اپنے والدین کے پہلو میں آسودہ خاک ہوچکا ہے بس یہی زندگی کی ساری حقیقت ہے، ہم لہو ولعب میں ڈوبے آسودہ زندگی کے بڑے بڑے منصوبے بنا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ دنیاداری کے بکھیڑوں میں خود کو الجھائے رکھتے ہیں مگر سانس نکلتے ہی سب کچھ مٹی کا ڈھیر ہو جاتا ہے اناللہ و انا الیہ راجعون۔ الوداع فصیح، الوداع۔