معیشت اور سیاسی آزادی

240

اسامہ الطاف
یہاں واقعی اُلٹی گنگا بہتی ہے، حکومت کو اخبار نویسوں سے اب یہ گلہ ہے کہ ٹماٹر کی قیمتیں معمول پر آگئی ہے تو میڈیا حکومت کی مدح سرائی کیوں نہیں کررہا۔ جب قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھی تو حکومت کا دعویٰ تھا کہ مسئلہ مہنگائی کا نہیں میڈیا کے پروپیگنڈے کا ہے، یہی رویہ حکومت نے آٹا بحران پر بھی اپنایا، منطقی طور پر کتنا ہی عجیب کیوں نہ ہو حکومت کے حامیوں کو یہ طریقہ بہت راس آتا ہے۔
معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے پیغام رساں (میڈیا) کو کوسنا مسئلہ کا حل نہیں، لیکن یہاں کچھ ایسا ماحول بنا ہوا ہے کہ گمراہ کن حل ہی تلاش کیے جارہے ہیں، کسی نے کہا: مخالفین کو دیوار سے لگانا اور جمہوری عمل پر غالب آجانا معیشت کے لیے کارگر ہے، دلیل کے طور پر بنگلا دیش کی مثال دی جہاں فرد واحد حسینہ واجد کا توتی بولتا ہے، مخالفین کو انہوں نے بزور بازو دبایا ہوا ہے اور جمہوریت کا یہ حال ہے کہ انتخابات میں ان کی جیت ہمیشہ یقینی ہوتی ہے، لیکن معاشی طور پر بنگلا دیش ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے، غربت اور افلاس کے بجائے اب بنگلا دیش کو دنیا میں کاٹن کی پیداوار اور فری لانسنگ کے حوالے سے جانا جاتا ہے، شرح نمو 8فی صد ہے، یعنی بھارت اور پاکستان سے زیادہ۔ حسینہ واجد کے اس کامیاب تجربے سے کسی دانشور نے یہ اخذ کیا کہ معیشت میں بہتری کا راستہ فرد واحد یا ایک گروہ کی مطلق العنان حکومت ہے، ہمارے فیصلہ ساز ایوانوں میں ایسے ادھ پکے دانشوروں کی آ ج کل بہتات ہے۔
مطلق العنان حکومت، مخالفین کو دیوار سے لگانا اور آزادی اظہار پر پابندیاں لگانا ہمارے معاشرے میں فیشن ہے، اس فیشن کے دلدادہ کبھی اپنے مقاصد کو مذہب کے لبادے میں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ غلط فہمی پھیلاتے ہیں کہ اسلام میں جمہوریت نہیں ڈنڈے کا نظام ہے، اور کبھی اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بنگلا دیش یا خلیجی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جہاں سیاسی آزادی نہ ہونے کے باجود معاشی خوشحالی یا ترقی کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس فلسفے کا جواب مغربی ممالک کی مثال دے کر نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ غلط فہمی بھی عام ہے کہ جو بنیادی انسانی آزادیاں ایک یورپی کو حاصل ہیں اس کا حق دارصرف یورپی ہی ہوسکتا ہے، برصغیر کے سادہ عوام ان آزادیوں کے حق دار نہیں ہیں، یہاں آزادی اور عزت صرف رقبوں، کنالوں اور صنعتوں کے مالکان یا اسلحے سے لیس اداروں اور شخصیات کی جاگیر ہے۔
مغرب کی نہیں، افریقی ملک ایتھوپیا کی مثال کو سامنے رکھ لیں، یہ ملک 70 اور 80دہائی میں دنیا کا تیسرا غریب ترین ملک تھا، ملک کے اندرونی حالات بھی انتہائی خراب تھے، خانہ جنگی کا دور دورہ تھا، یہ وہ عرصہ تھا جب ایتھوپیا پر فوجی آمروں کی حکومت تھی۔ 1994 میں ’محب وطن‘ فوجی آمروں کی جگہ ’کرپٹ‘ سیاستدانوں نے لے لی، عالمی اداروں کے مطابق 2000 سے 2016 کے درمیان ایتھوپیا تیزی سے ترقی کرنے والا دنیا کا تیسرا ملک بن گیا، شرح نمو 9فی صد تک پہنچ گئی، غربت کی شرح جو 80کی دہائی میں 50فی صد تھی، 2011 سے 2016 تک 31فی صد سے کم ہوکر 24فی صد رہ گئی۔ ایتھوپیا کے موجودہ وزیر اعظم آبے احمد تقریباً دو سال قبل جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان اور میڈیا کو مکمل آزاد کیا، انہی دو سال میں ایتھوپیا میں سستے پن بجلی منصوبے شروع کیے گئے، ایتھوپین ائرلائن کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا، بندرگاہوں تک ریلوے ٹریک بچھائے گئے، ترقی، بہتر معیشت اور سیاسی آزدی ایک ساتھ، کچھ لوگوں کے لیے سمجھنا اور ہضم کرنا مشکل ضرور ہے لیکن یہی حقیقت ہے، اور یہ حقیقت کسی مغربی ملک نہیں بلکہ ایک افریقی ملک کی ہے۔ آبے احمد کو چند چیلنجز اور خطرات کا بھی سامنا ہے، گارڈین اخبار کے مطابق یہ چیلنجز سیکورٹی اداروں کی جانب سے بھی پیدا کردہ ہو سکتے ہیں کیونکہ آبے احمد نے ملٹری (فوجی) افسران کو ہٹاکر سویلین (شہری) عہدیداران کو اہم مناصب پر فائز کیا۔ یہاں آبے احمد سے متعلق یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ وہ اسرائیل سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں جو یقینا قابل مذمت اور قابل نفرت سوچ ہے۔
ایتھوپیا کی مثال سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ سیاسی آزادیوں کے ساتھ معاشی ترقی نہ صرف ممکن ہے بلکہ سیاسی آزادی معیشت کو سہارا دیتی ہے، ملائیشیا، ترکی اور انڈیا نے بھی ترقی کا سفر سیاسی آزادی اور جمہوریت کے ساتھ ہی طے کیا ہے۔ غور کیا جائے تو معیشت میں بہتری کے لیے سیاسی آزادیوں پر قدغن کی نہیں بلکہ سیاسی استقرار کی ضرورت ہوتی ہے، بنگلا دیش میں مطلق العنانی کے باوجود سیاسی استقرار ہے، لیکن یہ مصنوعی استقرار ہے جو دیرپا نہیں ہوتا، ترکی، ملائیشیا اور بھارت میں حقیقی استقرار تھا، وہاں سیاسی عمل کے بیچ میں روڑے نہیں اٹکائے گئے، انتخابی عمل میں مداخلت نہیں کی گئی، کسی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ملک پر سیاسی تجربے نہیں کیے گئے، یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان ممالک میں خود ہی ترقی اور بہتر معیشت کا راستہ تلاش کرلیا۔ اس کے برعکس بھارت میں پچھلے چند سال میں جب سے سیاسی اور صحافتی آزادی پر قدغن ہے وہاں کی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ معاشی بحران کی ذمے داری میڈیا اور سیاسی مخالفین پر ڈال کر وقتی طور پر تو اپنے حامیوں کو خوش کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔