خدمت انسانیت کی کتاب، نعمت اللہ خاں بھی چلے گئے

395

جماعت اسلامی کے رہنما سابق رکن سندھ اسمبلی سابق امیر جماعت اسلامی کراچی، سابق و پہلے ناظم سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی، سابق چیئرمین کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور الخدمت فاونڈیشن پاکستان کے سابق سربراہ نعمت اللہ خاں منگل 25 فروری کو انتقال کرگئے۔ مگر اپنی ان مٹ یادیں چھوڑ گئے۔ نعمت صاحب ایک شفیق انسان، انسان دوست اور کراچی کو حقیقی کراچی، روشنیوں کا شہر اور اس کا حق دلانے کی کوشش کرنے والے ’’بابائے کراچی‘‘ تھے۔ وہ 2001 میں جنرل مشرف کے تخلیق کردہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم کے پہلے ناظم رہے۔ اگست 2001 سے اگست 2005 تک نعمت صاحب کراچی کی شہری حکومت کے سربراہ رہتے ہوئے نہ صرف شہر میں ترقیاتی کاموں کا احیاء کیا بلکہ ثابت کیا کہ ایماندار، دیانتدار اور سخت محنت کے نتائج کیسے اور کیا نکلتے ہیں۔ نعمت اللہ خاں کی یہ محنت اور حکمت ہی تو تھی کہ کراچی کا بجٹ ان کی نظامت کے دور میں 6 ارب سے بڑھ کر 46 ارب تک پہنچ گیا۔ لیکن کمال یہ تھا کہ انہوں نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ اس کے باوجود اپنے دور میں انہوں نے ملک کے سب سے بڑے شہر کی حالت بدل ڈالی وہ شہر جہاں کے پارک اجڑ چکے یا قبضہ ہوچکے تھے، جہاں کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈرات کا نمونہ بن گئیں تھیں، جہاں پانی کی قلت تھی اور پانی کا منصوبہ کے تھری کاغذوں میں سست روی سے چل رہا تھا۔ اسے وقت سے پہلے نہ صرف مکمل کرایا بلکہ منصوبے کی مقررہ لاگت 80 کروڑ روپے کم میں مکمل کروا کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ ریکارڈ اس لیے کہ سرکاری منصوبوں کی مقررہ لاگت میں مکمل ہونا ہی انوکھی بات تھی مگر انہوں نے اس منصوبے کے 80 کروڑ روپے بچالیے۔ کراچی اگر 90 کے بعد دوبارہ ترقی کی جانب بڑھنے لگا تو یہ دور نعمت اللہ خاں کا تھا۔ اس دور میں کراچی میں جو ریکارڈ ترقیاتی کام مکمل کرائے گئے جن میں 18 فلائی اوور، دو زیر زمین
گزر گاہ، سگنل فری دو کاریڈور، 30 ماڈل پارکس، 500 سو گرین بسیں، 32 نئے کالجز اور امراض قلب کا اسپتال کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز ( کے آئی ایچ ڈی) شامل ہے۔ میں پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان کے دور میں جتنے مثالی ترقیاتی کام کرائے گئے اتنے کام کسی بھی دور میں نہیں کرائے جاسکے۔ اس طرح اس دور کے ترقیاتی کاموں کے ریکارڈ کو آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ نعمت اللہ خان کے دور کے بعد تو پھر جو بھی دور آیا اس میں شہر کی تنزلی ہوتی گئی جو آج تک جاری ہے۔
نعمت اللہ خاں کے حالات زندگی کے بارے میں شہر کے ممتاز خدمت گار سماجی کارکن اور جماعت اسلامی الخدمت فاونڈیشن کے کی سرگرم شخصیت ڈاکٹر فیاض جنہیں 1992 تا 2020 نعمت اللہ خان کی شفقت و محبت حاصل رہی کا کہنا ہے کہ نعمت اللہ خان جن کے والد کا نام عبدالشکور خان اور والدہ کا نام بسم اللہ بیگم (شوہر کے انتقال کے بعد انہوں نے ایک اسکول میں بچوں کو پڑھایا، گویا اس دور میں ایک ورکنگ ویمن تھیں) کی تاریخ پیدائش یکم اکتوبر 1930 ہے۔ وہ اجمیر میں پیدا ہوئے لیکن آبائی وطن شاہ جہاں پور تھا والد ریلوے میل سروس میں کلرک تھے۔ نعمت اللہ خان کے دو بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ والد کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب وہ ساتویں کلاس کے طالب علم تھے۔ انہوں نے میٹرک کا امتحان 1946 میں پاس کیا، 16 سال کی عمر میں اجمیر میں تحریک پاکستان میں بھرپور انداز میں حصہ لیا جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرتے اور نعرے لگاتے اور مسلم لیگ کے ترانے پڑھتے بھی رہے۔ 16 سال کی عمر میں مسلم لیگ اجمیر کے نیشنل گارڈ کے صدر بنائے گئے۔
28 اگست 1947 کو تنہا پاکستان آئے اور کراچی میں پہلی رات فٹ پاتھ پر سوکر گزاری۔ کچھ عرصے کے بعد چھوٹے بھائی بھی کراچی آگئے اور نعمت اللہ صاحب ان کے ساتھ ایک کچے کمرے میں لیاری میں رہنے لگے، والدہ اور بہنوں کی کراچی آمد کے بعد مزار قائد کے قریب ایک جھگی میں رہائش اختیار کی جہاں پانی دور سے بھر کر لانا پڑتا تھا۔ نعمت اللہ خان نے طویل عرصے تک ایک کل وقتی ملازمت اور دو پارٹ ٹائم نوکریاں کیں، کراچی میں حبیب بینک، برٹش الومینیئم کمپنی، سندھ پرچیزنگ بورڈ، اور منسٹری آف ڈیفنس سمیت مختلف اداروں میں ملازمت کی۔ 1949 میں انٹر کیا پھر بی اے اور ایم اے کیا، ایم اے اسلامیہ کالج سے کیا۔ اس دوران ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا اور ملازمتیں بھی کرتے رہے۔ جامعہ کراچی سے صحافت میں ڈپلومہ کیا لیکن عملی صحافت میں قدم نہ رکھ سکے۔ پروفیسر شریف المجاہد ان کے استاد تھے۔ 1958 میں انکم ٹیکس کے شعبے میں وکالت کی پریکٹس شروع کی، دفتر بنانے کے لیے ایک دوست سے 5000 روپے بطور قرض لیے، 1960 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے، اہلیہ کا نام طاہرہ خان تھا۔ 1967 میں نارتھ ناظم آباد کے بلاک ایف میں 19000 روپے میں پلاٹ خریدا جس پر مکان بناکر ان کی فیملی ساری زندگی رہتی رہی، کچھ عرصہ قبل مکان فروخت کرکے بچوں اور بچیوں میں وراثت تقسیم کردی۔
نعمت اللہ خان کو اللہ نے سات بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں۔ نارتھ ناظم آباد میں جماعت اسلامی کے حلقے سے وابستہ ہوئے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر غریب بچیوں کے لیے جہیز کا بندوبست کرتے رہے۔ جماعت اسلامی میں خدمت خلق کے ذریعہ داخل ہوئے اور ساری زندگی خدمت انسانیت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ 1974 میں حرم مکی اور اس کے بعد مدینہ منورہ میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھایا، مدینہ میں حلف پروفیسر غفور احمد نے لیا تھا۔
1985 میں غیر جماعتی الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، اسمبلی میں کراچی کے حقوق کے لیے مسلسل آواز بلند کرتے رہے۔ متین علی خان صاحب کے بعد جماعت اسلامی ضلع وسطی کے امیر کی ذمے داری پر فائز ہوئے، اس دوران شعبہ خدمت خلق سے مسلسل وابستہ رہے، دسمبر 1991 سے جولائی 2001 تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہے اور الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کے صدر اور سرپرست بھی رہے۔ اگست 2001 سے اگست 2005 تک کراچی کے پہلے سٹی ناظم رہے اور شہر کے لیے بے مثال ترقیاتی کام کیے۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے انہیں الخدمت فاونڈیشن کا مرکزی صدر مقرر کیا۔ نعمت اللہ خان 1997-98 میں جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے نائب امیر بھی مقرر کیے گئے اس ذمے داری پر رہتے ہوئے انہوں نے ٹھٹھہ اور تھرپارکر میں دعوتی اور فلاحی کاموں کو منظم کیا۔ نعمت اللہ خان بلند فشار خون اور ذیابیطس جیسی بیماریوں میں طویل عرصے سے مبتلا تھے لیکن انہوں نے اپنی بیماریوں اور بڑھاپے کو کبھی کام کی راہ میں رکاوٹ بننے نہیں دیا۔ وہ سرتاپا جماعت اسلامی تھے، اقامت دین کے سچے اور مخلص کارکن۔ وہ مولانا مودودی کا چلتا پھرتا لٹریچر تھے۔ وہ بلاشبہ کراچی کے محسن تھے۔ نعمت اللہ خان جیسے لوگ مرتے نہیں وہ اپنے لاکھوں عقیدت مندوں کے دلوں اور ان کی یادوں میں زندہ رہتے ہیں۔ نعمت اللہ انسانیت کی خدمت کی بلا شبہ ایک کھلی کتاب تھے۔