وہ اوروں سے بہت مختلف تھا۔ اتنا مختلف تھا کہ آج 39 برس گزرنے کے باوجود اس کی آواز کانوں میں زندگی گھولتی ہے۔ جس سے پوچھو وہ کہتا ہے کہ وہ 1980ء کا آدمی نہیں تھا اسے 2025ء تک نظر آتا تھا اس سے بھی آگے دیکھتا تھا۔ کیوں نہ دیکھتا ہوگا وہ منتخب تھا اسے منتخب کر لیا گیا تھا۔ ہر سال 26 فروری کو ہم اپے محسن حافظ اسلم شہید کا ذکر کرتے ہیں… بس یاد تازہ کر لیتے ہیں… ایسا نہیں سے تو کیا قرض اتارنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ایسا بھی نہیں بلکہ ایک سبق سے جو ہم سب بھولتے جا رہے ہیں اسے تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر واقعہ دہرایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ذرا ہمارے موجودہ حکمرانوں اور آج کل کے نوجوانوں کو بھی پتا چل جائے۔ اور دائیں بائیں کی تفریق پر یقین رکھنے والوں اور میڈیا سے متاثر لوگوں کے علم میں بھی اضافہ ہو جائے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان بنتے ہی جو کچھ شروع ہوا وہ اسی چیز کا حصہ ہے جس کی جانب علامہ اقبال نے متوجہ کیا تھا۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شراریو لہبی
یہ صرف اسلام سے اسلام دشمنی ہے اس حوالے سے آگے بڑھنے والی کوئی آواز کوئی قوت اسلام بیزار لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ ہر آواز کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حافظ اسلم بھی ان میں سے ایک تھے۔ 26 فروری 1981ء کو صبح سے جامعہ میں عجیب ماحول تھا اگرچہ فائرنگ کے واقعات پہلے بھی ہوئے تھے لیکن پتا نہیں 26 فروری کو کیا تھا۔ اور دوپہر کو وہ بات ہوگئی پہلے جامعہ کے شعبۂ انتظامیہ پر ایک دستی بم یا بڑا پٹاخہ پھینکا گیا اس کے فوراً بعد فائرنگ شروع ہو گئی لوگ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ ہم پہلے ایڈمنسٹریشن کی طرف آئے پھر بس اسٹاپ پوسٹ آفس کی طرف ۔وہاں ایک بس میں سوار ہوئے اور بیچ سڑک پر ایک طالب علم پڑا نظر آیا۔ تصور میں نہ تھا کہ یہ کون ہے۔ جامعہ سے باہر نکلے تو دوسری بس سے اتر کر ایک نوجوان سوار ہوا اور اس نے بتایا کہ حافظ اسلم کو گولی لگی ہے اور انہیں اسپتال لے گئے ہیں پھر تھوڑی ہی دیر میں تصدیق ہو گئی کہ حافظ اسلم مغربی پاکستان کے طلبہ میں پہلے شہید ہوگئے۔
تعلیمی اداروں میں یونین شدت پسندی پھیلاتی ہے۔ لیکن جامعہ میں اس فائرنگ سے قبل واقعات میں فائرنگ کرنے والے جامعہ کے باہر کے عناصر۔ 26 فروری کو فائرنگ کرنے والے باہر کے لوگ جن کا یونین سے کوئی تعلق نہیں۔ سلام اللہ عرف ٹیپو پیپلز پارٹی کی دہشت گرد تنظیم الذوالفقار کا کارکن تھا۔ 26 فروری کو فائرنگ کی، دو دن بعد پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا اور اپنے ساتھ 54 دہشت گردوں کو بھی کابل لے گیا۔ اور آج تک یہی کہا جا رہا ہے کہ طلبہ یونین تشدد کو فروغ دیتی ہے۔ یہ حافظ اسلم کیوں نشانہ بنے… صرف ایک گولی سر کا نشانہ لے کر ماری گئی۔ ٹیلی اسکوپک ٹارگٹ کیا گیا۔ اس کی وجہ تھی جب سرخ والوں کی یونین تھی تو ان کے حساب کتاب میں گھپلوں سمیت بے تحاشا غلطیوں کی نشاندہی کرنے والا حافظ اسلم، اے پی ایم ایس او ابھی پنگوڑے میں تھی… حافظ اسلم نے اس وقت اس کا علاج کیا اور ان کے ہر پراپیگنڈے کا سیاسی توڑ کیا۔ لسانیت کو مسترد کیا۔ دوسری علاقائی تنظیموں کو بھی سیاسی میدان میں سخت مزاحمت ہوئی تو ان کے سرپرستوں نے پرانا علاج سوچا اور 26 فروری کو حافظ اسلم کو شہید کر دیا گیا۔ اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کی یونین تھی۔ چاہتے تو مار پیٹ کرتے لیکن جمعیت نے جامعہ کھلوائی، تعلیمی تسلسل کو رکنے نہ دیا اور سیاسی مخالفین کو جن کا کوئی قصور نہ تھا جامعہ آنے کے لیے ہمت افزائی کی۔ بالاخر اچھا ماحول پھر بحال ہوا اور اس کے اثرات بھی بہت اچھے ہوئے۔ چند مہینوں میں جمعیت کے مخالفین ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے پرچم تلے جمع ہو گئے اور دسمبر 1981ء کے الیکشن میں پہلے سے زیادہ ووٹ جمعیت کو ملے… اس سارے عمل کے ماسٹر مائنڈ حافظ اسلم ہی تھے۔ اگرچہ سامنے سے پرتشدد انداز اختیار کیا جاتا تھا لیکن حافظ اسلم نے ساری جنگ سیاسی انداز میں لڑنے کا مشورہ دیا۔ ایک وقت تھا کہ سمیسٹر سسٹم کے خلاف سازشیں شروع ہو گئی تھیں اس کے خلاف بھی جمعیت نے بند باندھا تھا۔
حافظ اسلم جامعہ کراچی سے فارغ ہو چکے تھے اپنے کاغذات ڈگری اور تعلیمی اسناد کے حصول کے لیے آئے ہوئے تھے کہ دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ جو کچھ 1981ء میں پیش آیا وہ 1984ء کے اقدامات کی تیاری تھی۔ پہلا قتل اسلم کا ہوا اس کے بعد بیرونی عناصر کے جھگڑوں میں مزید طلبہ کا قتل ہوا اور میدان جامعہ کراچی اور کالجوں کو بنایا گیا تاکہ تعلیمی اداروں اور طلبہ یونینوں اور تنظیموں کو بدنام کیا جا سکے اور پابندی کے لیے ماحول سازگار کیا جائے۔ یہ کام صرف تین برس میں ہوگیا۔
جامعہ کراچی پر حافظ اسلم کے بہت سے احسانات ہیں۔ مختلف کالجوں سے میرٹ پر پورا اترنے والے طلبہ کو جامعہ لانے میں ان کا بہت اہم کردار تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اچھے طلبہ کو لائو جمعیت خود بخود پروان چڑھے گی۔ گھر گھر جا کر لوگوں سے رابطے کرنے میں ان کا ثانی نہیں تھا۔ یہی ترکیب این ای ڈی کے الطاف شکور اورمسعود محمود نے استعمال کی اور این ای ڈی میں انقلاب لے آئے۔ ایک مرتبہ بڑی دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی۔ ہم نے بھی ان کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے سب سے دوستی کر رکھی تھی۔ ہمارے فیکلٹی ناظم کے پاس رپورٹ ہوئی کہ یہ تو اے پی ایم ایس او میں ہے۔ انہوں نے ہم سے تصدیق بھی کی اور پھر دو دن بعد حافظ اسلم ملے۔ کہنے لگے کیا اے پی ایم ایس او والوں میں اٹھ بیٹھ رہے ہو ہم نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے، کیا نہ بیٹھا کروں… کہنے لگے… نہیں آپ کے بارے میں کسی نے کہہ دیا کہ جمعیت کا نہیں ہے۔ آپ جن لوگوں سے ملتے ہیں ملتے رہیں ایک دن یہ بھی کام کے لوگ نکلیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا وہ تمام لوگ جمعیت کے ووٹر بنے اور کئی لوگ کارکن بھی بنے۔ حافظ اسلم نے شعبۂ سیاسیات کی نظامت بھی ہمارے گلے میں ڈلوا دی۔ اس نظامت نے شعبے کو کچھ دیا ہو نہ دیا ہو ہمیں تو آدمی بنا دیا۔ ڈاڑھی رکھوا دی، لباس میں تبدیلی آگئی، حرکتیں بھی بدلنا پڑیں۔ فلمیں تو حافظ اسلم پہلے ہی چھڑوا چکے تھے۔ بات ہی ایسی کہی تھی کہ فلمیں دیکھنا ایسا ہے جیسے اپنے پیسوں سے اپنے لیے آگ خریدنا۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ بہت سوں کو آگ سے بچانے کا سبب بنے تھے وہ۔