سابق امیر جماعت اسلامی کراچی اور شہر کے اولین سٹی ناظم نعمت اللہ خان منگل 25 فروری کو خالق حقیقی سے جاملے، خدا نے جس خوبصورتی سے یہ شاہکار بنایا تھا اور اس سے جو کام لینا تھا اس کے لیے انہیں پاکستان بھیجا۔ یہ پاکستان آئے تو پاکستان کا حال وہی تھا جو انہوں نے کراچی کی نظامت سنبھالتے وقت کراچی کا دیکھا … فرق صرف یہ تھا کہ قیام پاکستان کے وقت مملکت نوزائیدہ تھی اور ان کی نظامت کے وقت تک اس شہر کو لوٹ لوٹ کو کھنڈر بنایا جاچکا تھا نعمت اللہ خان نے کراچی کی کچی آبادیاں، شہر کی کچی پکی سڑکیں روزانہ دھوئی جانے والی بندر روڈ(ایم اے جناح) بھی دیکھی تھی۔ جب انہوں نے کراچی کی نظامت سنبھالی تو اس وقت تک وہ کراچی جماعت کے امیر تھے۔ نعمت اللہ خان کے انتخاب کے حوالے سے بعد میں مختلف باتیں کی جاتی رہیں لیکن اگر اس موقع پر اس کام کا کوئی صحیح حقدار یا کراچی کو نئے سٹی نظام سے متعارف کرانے یا اس نظام کو پہلی مرتبہ نافذ کرنے والا کوئی تھا تو وہ اس انتخاب کے موقع پر صرف اور صرف نعمت اللہ خان تھے۔ اتفاق کی بات ہے انہیں نیا نظام وضع کرنے ،اسے سمجھنے اور نافذ کرنے کی تمام ذمے داریاں ملی تھیں۔ نعمت اللہ خان اگر چہ پیشے کے اعتبار سے انکم ٹیکس وکیل تھے لیکن چونکہ جماعت اسلامی کے ذمے دار رہے اور ایک ایک علاقے کو اچھی طرح جانتے تھے اس لیے عوامی مسائل کے حل کے موقع پر خان صاحب بھی دھوکے میں نہیں آئے۔ ان کی شخصیت کے دو پہلو مشہور ہیں۔ ایک جماعت اسلامی اور دوسرے سٹی نظامت اور خدمت۔ لیکن درحقیقت یہ دونوں پہلو ایک ہی ہیں جماعت اسلامی کی دعوت درد مندوں کی درد دل رکھنے والوں کی اور خلق خدا کی خدمت کرنے والوں کی ہے۔ نعمت اللہ خان سرتاپا خدمت تھے۔ چونکہ ابتدائی ایام ہی سے وہ خدمت خلق کرتے رہتے تھے اس لیے جب الخدمت کی ذمے داری ملی تو انہیں کچھ پتا نہیں لگا۔ خان صاحب نے اسے اپنی زندگی کا معمول ہی سمجھا اور یہ معمول جب سٹی نظامت پر پہنچا تو یہ بھی سب معمول تھا بلکہ برسوں سے کراچی کو سدھارنے کی خواہش چمکتا دمکتا سربراہ شاداب روشن کراچی اسکا خواب تھا قدرت نے انہیں یہ خواب پورا کرنے کا موقع دے دیا۔
خان صاحب نے چارج سنبھالا تو انہوں نے ہمیں بھی اپنے ساتھ رکھا اور میڈیا میں سٹی گورنمنٹ کے بارے میں رپورٹنگ اور خرابیوں کی نشاندہی کی ذمے داری لگائی ۔ہم نے پوچھا خان صاحب کرنا کیا ہے … کہنے لگے میرے پاس رپورٹس آتی ہیں کہ سٹی گورنمنٹ سب ٹھیک کررہی ہے لیکن مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ کہاں کہاں خرابی ہورہی ہے ۔ اگلے دن ہم نے رپورٹ بنانے والے صاحب کو بلاکر کہا کہ پہلے منفی اور تنقیدی خبریں لگایا کریں۔ اس روز خان صاحب نے کہا کہ آج ٹھیک رپورٹ آئی ہے اس کی روشنی میں احکامات جاری کیے اور کہنے لگے سب اچھا سننے کی عادت اور شوق تو سب کو ہوتا لیکن اصلاح کے لیے تنقید سننا تو ضروری ہے۔ سٹی ناظم کا مطلب کراچی کا گورنر یا حاکم شہر تھا لیکن ان کے کمرے کا دروازہ کھلا ہی رہتا تھا۔
وہ مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت چوکس رہتے تھے ۔ ایک روز کراچی کے میٹرک پاس طلبہ کا وفد اساتذہ اور والدین کے ساتھ آیا تھا ۔ مسئلہ یہ تھا کہ کراچی کے کالجوں میں داخلوں کی تاریخ آج ختم ہو گئی تھی ۔ ان طلہ کو بوجوہ نتائج ہی آج ملے تھے ۔ اس مسئلے کا حل کیسے نکالا جائے ۔ خاں صاحب نے اس وقت کے ڈی سی او شفیق الرحمن پراچہ سے استفسار کیا ۔ پراچہ صاحب نے ای ڈی او تعلیم کو وہیں بلوایا اور کہا کہ میٹرک کے کئی درجن طلبہ محض ہمارے شعبۂ تعلیم کی وجہ سے انٹرمیں داخلے سے محروم رہ جائیں گے ۔ ان میں اے گریڈ اور فرسٹ ڈویژن والے بھی ہیں انیتا غلام علی ، ای ڈی او نے پوچھا کیا کروں… پراچہ صاحب نے کہا کہ چونکہ نعمت اللہ خان مسائل حل کرانا چاہتے ہیں ۔ بڑھانا نہیں اس لیے آپ بتائیں کیا تاریخ بڑھ سکتی ہے ۔چنانچہ تاریخ بڑھا دی گئی ۔ پھر وہ بھی پیر کے بجائے منگل تک تاکہ طلبہ کو وقت مل سکے ۔ ایک روز قومی اخبار میں خبر شائع ہو گئی کہ نئے سٹی ناظم صرف تختیوں کی نقاب کشائی کر رہے ہیں انہیں اور کوئی کام نہیں ۔ شعبہ میڈیا نے کہا کہ سر اس کی گرفت کی جائے ۔ لیکن خان صاحب نے منع کر دیا ۔ ہم نے پراچہ صاحب کے ساتھ یٹھ کر الیاس شاکر سے بات کی اور انہیں بتایا کہ ایک آدمی ستر برس کی عمر میں صبح8 بجے گھر سے نکلتا ہے ۔ دفتر میں بیٹھتا ہے ۔دن بھر دفتری امور اور سائلین کے معاملات دیکھتا ہے ۔ شام کو گھرجانے کے بجائے اپنے کاموں کا جائزہ لیتا ہے۔ اس دوران افتتاح بھی کرتا ہے اور پھر نئے منصوبوں کے لیے خود ان مقامات کا دورہ کرتا ہے جہاں کام ہونا ہے اور رات 11بجے گھر میں داخل ہوتا ہے ۔ آپ نے اس کے بارے میں ایسی خبر لگا دی ۔ اگلے دن الیاس شاکر نے ان ہی الفاظ میں نعمت اللہ خان کو خراج تحسین پیش کیا ۔ ایک روز بہادرآباد کے دُکانداروں کا وفد آ گیا ۔ سٹی گورنمنٹ کو یکمشت سالانہ ٹیکس دینے سے انکار کر رہے تھے ۔ خان صاحب نے پوچھا مسئلہ کیا ہے۔ کہنے لگے یہ رقم زیادہ ہے ہم غریب لوگ ہیں ۔ اس پر خان صاحب مسکرائے اور کہا کہ تم میں سب سے غریب اور سب سے چھوٹی دُکان والا کون ہے ۔ ایک صاحب نے اپنا تعارف کرایا ۔ خاں صاحب نے کہا کہ اپنی دکان مجھے 50 لاکھ میں بیچ دو ۔کہنے لگا اس سے زیادہ قیمت ہے ۔ خاں صاحب نے 60 لاکھ پھر ایک کروڑ کہا… تو وہ خاموش ہو گیا ۔ خاں صاحب نے کہا کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی وجہ سے شہر کے چپے چپے سے واقف ہوں آپ کی دکان فلاں صاحب کے برابر والی ہے ۔ کم از کم دو کروڑ کی ہے ۔ آپ سے چند ہزار روپے سالانہ ٹیکس ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ پھر انہوں نے یکمشت ادائیگی کرنے والوں کو 30 فیصد رعایت دے دی اور کروڑوں روپے فنڈز وصول ہوئے ۔ اس قسم کا ایک اور واقعہ خالد بن ولید روڈ کے کار شو روم والوں کا تھا ۔ ان کے شو رومز کے سامنے سے گاڑیاں ہٹوائی گئیں اور فٹ پاتھ توڑ دیے گئے تھے ۔ خبریں چلائی گئیں کہ نعمت اللہ خان نے فٹ پاتھ توڑ دیے ۔ وفد پہنچا تو خاں صاحب نے کہا کہ اگرچہ یہ میں نے نہیں تڑوائے ہیں لیکن میرے پاس کیس آتا تومیں یہی حکم دیتا ۔ آپ کو دکان ملی ہے فٹ پاتھ اور سڑک پرکاروبار کا حق نہیں ملا ۔ آج مراد علی شاہ اس سڑک پر شو روم والوں سے ہر ماہ جنگ میں اُلجھے رہتے ہیں ۔ کیونکہ نیچے معاملات خراب ہیں ۔
سٹی ناظم کے طور پر کراچی کی شکل تبدیل کرنے والے تو نعمت اللہ خان تھے ہی لیکن یہ کارنامہ کیسے ہوا، پانچ چھ ارب کا بجٹ3 ارب تک ،نئے ٹیکسوں کے بغیرکیسے پہنچا ۔ انہوں نے صرف کرپشن ختم کی ۔ اینٹوں پر کھڑی گاڑیوں کے نام پر بھی پیٹرول کی رقم وصول ہوتی تھی ۔ٹائون آفسز ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس بنے ہوئے تھے ۔ نیچے دہشت گردوں اور اوپر ان کی سر پرست حکومت سندھ اور گورنر سے نمٹناایک مرحلہ تھا ۔ کراچی کی ترقی کے لیے جو منصوبہ بنایا جاتا یہ لوگ اس میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔لیکن یہ لوگ بعد میں کراچی کے وارث بن گئے ۔ایک سازش کے تحت کراچی کو لوٹا گیا اورادھیڑ کر رکھ دیا گیا ۔ ماس ٹرانزٹ ، پانی کے منصوبے ، گرین بسیں ، پارکس سب کو تباہ کیا گیا اور نعمت اللہ خان کے جانے کے بعد سے یہ شہر لا وارث تھا ۔ اس کے نام نہاد دعویدار پہلے لندن میں تھے اوراب بھی میئر اور وزارتوں میں ہیں ۔ لیکن کچھ نہیں کر رہے ۔ 25فروری کو لا وارث کراچی یتیم بھی ہو گیا ۔ محسن کراچی نعمت اللہ خان کو اللہ نے بلا لیا ۔ اللہ نے اپنی نعمت واپس لے لی ۔کراچی کے لوگ ایسی نعمت چاہتے ہیں تو انہیں اپنے فیصلوں سے رجوع کرنا ہوگا ۔
نعمت اللہ خان پیدائش سے سفرِآخرت تک
کراچی میں خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والے اولین سٹی ناظم اور سابق امیر جماعت اسلامی کراچی
نعمت اللہ خان کراچی میں انتقال کرگئے وہ1930 میں اجمیر میں پیدا ہوئے۔
نعمت اللہ خان یکم اکتوبر 1930 کو اجمیر میں پیدا ہوئے – لیکن آبائی وطن شاہ جہاں پور تھا۔ والد عبدالشکور خان ریلوے میل سروس میں کلرک تھے – نعمت اللہ خان صاحب کے دو بھاء اور تین بہنیں تھیں۔
والد کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب وہ ساتویں کلاس کے طالب علم تھے ۔ والدہ کا نام بسم اللہ بیگم تھا ، شوہر کے انتقال کے بعد انہوں نے ایک اسکول میں بچوں کو پڑھایا۔
نعمت اللہ خان نے میٹرک کا امتحان 1946 میں پاس کیا۔ 16 سال کی عمر میں اجمیر سے تحریک پاکستان میں بھرپور انداز میں حصہ لیا- جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرتے اور نعرے لگاتے اور مسلم لیگ کے ترانے پڑھتے تھے ۔
اسی دور میں آپ کو مسلم لیگ اجمیر کے نیشنل گارڈ کا صدر مقرر کیا گیا۔ تقسیم کے بعد 28 اگست 1947 کو تنہا پاکستان آئے اور کراچی میں پہلی رات فٹ پاتھ پر سوکر گزاری۔
کچھ عرصے کے بعد چھوٹے بھائی بھی کراچی آگئے اور نعمت اللہ ان کے ساتھ ایک کچے کمرے میں لیاری میں رہنے لگے ۔
والدہ اور بہنوں کی کراچی آمد کے بعد مزار قائد کے قریب ایک جھگی میں رہائش اختیار کی جہاں پانی دور سے بھر کرلانا پڑتا تھا۔
نعمت اللہ خان نے طویل عرصے تک ایک کل وقتی ملازمت اور دو پارٹ ٹائم نوکریاں کیں۔ کراچی میں حبیب بینک، برٹش الومینیئم کمپنی، سندھ پرچیزنگ بورڈ، اور منسٹری آف ڈیفنس سمیت مختلف اداروں میں ملازمت کی۔
1949 میں انٹر کیا، پھر بی اے اور اسلامیہ کالج سے ایم اے کیا- اسی دوران ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا اور ملازمتیں بھی کرتے رہے ۔
جامعہ کراچی سے صحافت میں ڈپلومہ کیا لیکن عملی صحافت میں قدم نہ رکھ سکے – پروفیسر شریف المجاہد ان کے استاد تھے ۔
1958 میں انکم ٹیکس کے شعبے میں وکالت کی پریکٹس شروع کی، دفتر بنانے کے لئے ایک دوست سے 5000 روپے بطور قرض لئے تھے ۔
سنہ 1960 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے – اہلیہ کا نام طاہرہ خان تھا- 1967 میں نارتھ ناظم آباد کے بلاک ایف میں 19000 روپے میں پلاٹ خریدا جس پر مکان بناکر ان کی فیملی ساری زندگی رہتی رہی- کچھ عرصہ قبل مکان فروخت کرکے بچوں اور بچیوں میں وراثت تقسیم کردی- نعمت اللہ خان کو اللہ نے سات بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں۔
نارتھ ناظم آباد میں جماعت اسلامی کے حلقے سے وابستہ ہوئے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر غریب بچیوں کے لئے جہیز کا بندوبست کرتے رہے ۔
1974 میں خانہ حرم مکی اور اس کے بعد مدینہ منورہ میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھایا- یہ حلف پروفیسر غفور احمد نے لیا تھا۔
سنہ 1985 میں غیر جماعتی الیکشن میں سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ اس دوران اسمبلی میں کراچی کے حقوق کے لئے مسلسل آواز بلند کرتے رہے ۔
1989 میں متین علی خان کے بعد جماعت اسلامی ضلع وسطی کے امیر کی ذمہ داری پر فائز ہوئے ۔
دسمبر 1991 سے جولائی 2001 تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہے اورالخدمت ویلفیئر سوسائٹی کے صدر اور سرپرست بھی رہے ۔
اگست 2001 سے اگست 2005 تک کراچی کے پہلے سٹی ناظم رہے اور شہر کے لئے بے مثال ترقیاتی کام کئے ۔
اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے انہین الخدمت فاونڈیشن کا مرکزی صدر مقرر کیا۔
نعمت اللہ خان 1997-98 میں جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے نائب امیر بھی مقرر کئے گئے اس ذمہ داری پر رہتے ہوئے انہوں نے ٹھٹھہ اور تھرپارکر میں دعوتی اور فلاحی کاموں کونظم کیا۔
نعمت اللہ خان صاحب بلند فشار خون اور زیابیطس جیسی بیماریوں میں طویل عرصے سے مبتلا تھے لیکن انہوں نے اپنی بیماریوں اور بڑھاپے کو کبھی کام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ وہ سرتاپا جماعت اسلامی تھے ۔
(ڈاکٹر فیاض عالم کی پوسٹ سے )