نعمت اللہ خان: خدمت خلق کا پیکر

381

عطا محمد تبسم
صبح سویرے ناظم آباد کے گھر کے کشادہ کمرے میں بہت سی کرسیاں پڑی تھیں۔ بچے کھیل رہے تھے، اور خان صاحب ایک کرسی پر بیٹھے آنے والوں سے مل رہے تھے۔ نہ کوئی روایتی ڈرائنگ روم، نہ کوئی اور آرائشی اہتمام، لوگ اپنے مسائل لیے موجود تھے ۔نعمت اللہ خان کی یہ بیٹھک صبح شام یونہی کھلی رہتی تھی۔ کراچی میں قتل غارت گری کا طوفان برپا تھا۔ لیکن فقیر کا ڈیرہ مرجع خلائق یونہی کھلا تھا، نہ کوئی چوکی، نہ پہرہ، خان صاحب کی ہمت قابل دید تھی، وہ ان تھک کام کرتے، ان کی ڈیوٹی دینے والے رینجر اہلکار، اکثر کہتے تھے کہ ہم تھک جاتے ہیں، لیکن خان صاحب کی رات دن کی مصروفیت کے باوجود وہ کبھی تھکے نظر نہ آئے۔
آج جماعت اسلامی کی الخدمت ایک شان وشوکت کا اظہار ہے، امدادی کاموں کا دائرہ کروڑوں تک پھیلا ہوا ہے، دنیا الخدمت کی امانت اور دیانت کی معترف ہے۔ بجٹ اربوں روپے کا ہے۔ بہت سے ملکوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ لیکن الخدمت کا کام کیسے منظم ہوا۔ یہ بھی اس مرد درویش نعمت اللہ خان ہی کا لگایا ہوا پودا ہے۔ جو آج برگ و بار لا رہا ہے۔ الخدمت کی ابتداء اور اس کے کام کیونکر شروع ہوئے، یہ نعمت اللہ خان ہی کی زبانی سنیے۔ اجتماعی ماحول سے وابستگی اپنے پسندیدہ کام خدمت خلق کی مصروفیات انجام دینے کے لیے زیادہ ساز ثابت ہوئی۔ لیگل پریکٹس کے دوران بھی یہ سلسلہ قدرے ڈھیلے ڈھالے انداز سے جاری تھا۔ تین چار احباب میرے ساتھ اس کام میں شامل ہوئے۔ کلائنٹس کو بھی آمادہ کرتا حصہ شامل کرو۔ دیکھتا مختلف ضرورت مند جماعت کے افراد سے رابطہ کرتے۔ ڈاکٹر اطہر قریشی سے کہا آپ کے پاس شادی بیاہ اور امداد کے سلسلے میں درخواستیں آتی ہیں یہ مجھے دے دیا کریں۔ انکوائری کر کے سامان پہنچانے سمیت دیگر ذمے داریاں میرے سپرد کریں۔ وہ بخوشی آمادہ ہو گئے دیکھا دیکھی اہلیہ کی طبیعت بھی ان کاموں کی جانب مائل ہو گئی۔ کاموں میں ہاتھ بٹانا، امدادی سامان پیک کرنا سلیقے سے رکھنا از خود اپنے ذمہ لے لیا۔ یہ سلسلہ مختصر عرصے میں ایسا مستحکم ہوا کہ جماعت کہ دیگر پروگرامز کے مقابلے میں خلق خدا کی خدمت پر مبنی کام طبیعت کو بھانے لگے۔ نارتھ ناظم آباد تنظیمی تقسیم کے اعتبار سے علاقہ کہلاتا تھا۔ ڈاکٹر اطہر قریشی نے نوٹ کیا رفاعی سرگرمیوں کی جانب جھکائو کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے تو مجھے خدمت خلق کا علاقائی انچارج بنا دیا اس وقت شعبہ خدمت خلق کے تحت اجتماعی سرگرمیوں اور منصوبوں کا تصور نہیں تھا شادی بیاہ اور انفرادی امداد ہی کل مصروفیت تھی۔ درخواستیں آئیں انہیں پڑھ کر مختلف ذرائع سے تصدیق کرتا خود بھی معلومات کرتا۔ احوال کا جائزہ لینے اوراطمینان کرنے کے بعد ممکنہ امداد فراہمی کرتے۔ ایسی ہی مصروفیت میں نیو کراچی کے ایک گھرانے کی جانب سے شادی کے لیے امداد کی درخواست موصول ہوئی۔ تحقیق کے لیے ان کے گھر پہنچا تو عالم یہ تھا بٹھانے کے لیے ایک جھلنگی چارپائی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ گفتگو کے دوران پتا چلا اگلے دن شادی ہے اور بچی کے سر پر رکھنے کے لیے ایک دوپٹا تک نہیں ہے۔ دل لرز کر رہ گیا۔ کچھ سامان تو ساتھ لے کر گئے تھے وہ حوالے کیا۔ جب میں واپس لوٹ رہا تھا خیال آیا معاشرے میں اس قدر محرومی، کوئی ایسا میکنزم ہونا چاہیے کہ جس سے ضرورت مند بہتر انداز میں استفادہ کریں۔ حکیم صادق صاحب امیر کراچی تھے انہوں نے جماعت اسلامی کراچی کا باقاعدہ شعبہ خدمت خلق قائم کر دیا۔ سرگرمیوں کی نوعیت اور وسیع ہو گئی طلبہ کو وظائف، فیس کا انتظام سمیت دیگر مدات بھی شامل ہو گئیں۔
اورنگی اسپتال کے قیام کے بارے میں نعمت اللہ خان بتاتے ہیں۔ ان کے مشوروں اور باہم تبادلہ خیال کے بعد یہ بات ذہن میں واضح ہو گئی کہ تنظیم میں وسعت، عوام میں پزیرائی کے لیے کارکنان کی تربیت کے ساتھ خدمت خلق کو بطور خاص اپنا ہدف بنانا چاہیے۔ کراچی کے مڈل کلاس عوام ان کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے منصوبوں کا آغاز ہونا چاہیے جو زندگی کے سفر میں مددگار بن سکیں۔ ابتدا میں معمول کے پروگراموں کے علاوہ رفقا کے مشورے سے صحت کے حوالے سے کچھ منصوبے شروع کرنے کے بارے میں طے کیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان علٰیحدہ ملک بن جانے کے بعد بہت سارے افراد ہجرت کر کے کراچی کے علاقے اورنگی ٹائون میں بس گئے۔ اس وقت تک جماعت اسلامی شعبہ خدمت خلق کے نام سے رفاعی سرگرمیاں انجام دیتی تھی۔ انچارج غالباً ڈاکٹر عبدالمجید تھے۔ یہ جنرل سرجن تھے۔ دیگر بانی اراکین میں پروفیسر نور الہٰی، ڈاکٹر اقبال غیور، ڈاکٹر افتخار کے علاوہ کچھ اور ساتھی شامل تھے۔ یہ بات مشاہدے میں تھی کہ اورنگی ٹائون میں سفید پوش طبقے کے لیے صحت کے حوالے سے کوئی انتظام نہیں تھا۔ معمولی سی بات پر انہیں طویل سفر کر کے عباسی شہید اسپتال، سول اسپتال یا جناح اسپتال آنا پڑتا تھا۔ اس لیے 1974ء میں ایک ایکڑ کے لگ بھگ رقبے کا پلاٹ خریدا گیا تاکہ یہاں پر 200 بسترں کا اسپتال تعمیر کیا جائے۔ لیکن وسائل نہیں تھے۔ راہ اس طرح آسان ہوئی کہ شعبہ خدمت خلق کے انچارج ڈاکٹر عبدالمجید ڈائو میڈیکل کالج میں لیکچرار کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ ان کا ایک شاگرد سعودی عرب میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے عہدے پر فائز تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے اسپتال کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے سعودی حکمران شاہ خالد سے ملاقات کروانے کا وعدہ کیا اور وفد کی شکل میں سعودی عرب آنے کا مشورہ دیا۔ میں ڈاکٹر عبدالمجید اور چند افراد سعودی عرب پہنچے۔ لیکن افسوس ہمارے پہنچنے سے قبل شاہ خالد کا انتقال ہو گیا تھا۔ ایک طرف جہاں سے ان ملاقات نہیں ہو سکی وہیں دوسری طرف آنے والے حکمران نے انتظامی مشنری کو بھی تبدیل کر دیا۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ بھی کہیں آگے پیچھے ہو گئے۔ وفد خالی ہاتھ واپس لوٹ آیا۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک عبدالستار افغانی کراچی کے میئر بن گئے توجہ دیگر کاموں میں الجھ گئی۔ یہ 1994ء کا برس تھا جب ڈاکٹر فیاض عالم نے رکے ہوئے منصوبے کی طرف توجہ دلائی۔ پلاٹ پر الخدمت ایلو پیتھک ڈسپنسری اور جماعت اسلامی ضلع غربی کا دفتر بنا ہوا تھا۔ باقی حصے پر کئی فٹ گہرے گڑھے اور ان میں پانی بھرا ہوا تھا۔ الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کے پاس اس قدر پیسے نہیں تھے کہ ایک دم سارے اسپتال کی تعمیر شروع کر دیتی اس لیے پہلے مرحلے میں صرف چار دیواری تعمیر کی گئی۔ احباب کا مشورہ تھا ابتدا میں ڈائیگنوسٹک سینٹر بنایا جائے۔ پروگرام پر عمل درآمد کے لیے ضلع غربی کے امیر اشرف اعوان کی سربراہی میں کمیٹی بنائی۔ ڈاکٹر فیاض عالم کو پروجیکٹ ڈائریکٹر بنایا گیا۔ فنڈز کے لیے باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ اس موقع پر بہت سارے مخیر حضرات کے علاوہ حلقہ خواتین نے بہت تعاون کیا۔ برطانیہ کی ’’مسلم ایڈ‘‘ سے رابطہ ہوا۔ واسطی صاحب سربراہ تھے۔ انہیں اسپتال کی تعمیر کے متعلق تفصیلات بتائیں تو بخوشی تعاون پر آمادہ ہو گئے۔ 2 برس کے مختصر عرصے میں اسپتال کی عمارت وجود میں آگئی۔ خدمت خلق کا پیکر، کراچی سے محبت کرنے والا، اور کراچی کو بنانے اور سنوارنے والا نعمت اللہ خان 25 فروری 2020 کو اس دار فانی سے رخصت ہوگیا۔ آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔