4۔ بجلی، گیس اور تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ: نجی ملکیت کی وجہ سے جمہوریت پرائیوٹ کمپنیوں کے نفع کو یقینی بناتی ہے۔
5۔ کرنسی کے تبادلے کی شرح کو تبدیل کرنا۔
6۔ فری مارکیٹ اکا نومی: جس کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی اور کارٹیلزکا قیام ہوتا ہے۔
یہ وہ چھ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب آئی ایم ایف کی شرائط ملاحظہ فرمائیے جو وہ اپنے پروگراموں میں شامل رکھتی ہے اور حکومتوں کو انہیں تسلیم کرنے اور سختی سے عمل کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے: 1۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ 2۔ گیس کی قیمت میں اضافہ 3۔ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ 4۔ روپے کی قدر میں کمی 5۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ۔ آئی ایم ایف کے دبائو میں آکر یہ اقدامات اٹھائے جائیں گے تو مہنگائی کی شرح میں تو خوفناک اضافہ ہونا ہی ہے۔ پھر کون ہے جو مہنگائی کے طوفان کو روک سکے۔ یہ اقدامات اٹھانے کے بعد حکومتیں مہنگائی کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے نام پر جن پروگراموں کا اعلان کرتی ہے کیا ان کی کوئی حقیقی معنویت باقی رہ جاتی ہے؟ مسئلہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا ہے۔ جب تک اس نظام پر عمل ہوتا رہے گا حکومتیں چاہے کرپٹ ہوں یا ایمان دار عوام مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے۔ ان کی آمدنی اور بچتیں کم ہوتیں اور سکڑتی رہیں گی جب کہ دولت مند اشرافیہ کی دولت میں دن دگنا اور رات چو گنا اضافہ ہوتا رہے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ مہنگائی کے مسئلے کا حل کیا ہے۔ مہنگائی کے مسئلے کا حل اسلام کا معاشی نظام ہے جو ان تمام وجوہات کا خاتمہ کرتا ہے جو مہنگائی کا سبب بنتی ہیں آئیے ایک ایک کرکے ان کا جائزہ لیتے ہیں:
افراط زر یعنی کرنسی کی چھپائی عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کا موثر طرین طریقہ ہے۔ عوام کو احساس ہی نہیں ہوتا اور ان کی جمع پونجی اور کمائی کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ 2007 میں جتنی رقم میں ایک تولہ سونا (11.66 گرام) آتا تھا آج اتنی رقم سے صرف دوگرام سونا خریدا جاسکتا ہے۔ اسی طرح 2007 میں جتنی رقم میں ایک تولہ چاندی خریدی جا سکتی تھی آج اتنی رقم میں صرف ساڑھے تین گرام چاندی آتی ہے۔ اشیا کی قیمتوں میں عمومی اضافے کی واحد وجہ افراط زر ہے یعنی حکومت کا دھڑا دھڑ کرنسی نوٹ چھاپنا جسے اسٹیٹ بینک سے قرض لینا بھی کہا جاتا ہے۔ اسلام کرنسی کو سونے اور چاندی کی بنیاد پر قائم کرنے کو فرض قرار دیتا ہے۔ رسالت مآب سیدنا محمد عربیؐ نے 4.25 گرام کے سونے کے دینار اور 2.975 گرام کے چاندی کے درہم کو ریاست کی کرنسی کے طور پر برقرار رکھا۔ شریعت نے مالیاتی احکامات سونے اور چاندی سے مربوط کیے ہیں جیسا کہ دیت اور زکوٰۃ کا نصاب وغیرہ۔ سونے اور چاندی کی بنیاد پر جاری ہونے والی کرنسی کی اپنی ایک حقیقی قدر ہوتی ہے جس سے نہ صرف کرنسی بلکہ اشیا کی قیمتوں کو بھی استحکام ملتا ہے۔ اس کے بعد حکومت اپنی مرضی سے کرنسی نوٹ نہیں چھاپ سکتی جس کی وجہ سے عمومی مہنگائی کا بڑی حدتک قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اسلام کے نظام خلافت میں سونے اور چاندی کو کرنسی کی بنیاد بنایا جاتا ہے جو افراط زر کو مکمل روک دیتا ہے جس سے مہنگائی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہ خواب وخیال کی باتیں نہیں ہیں۔ دنیا نے ایک ہزار برس سے زائد اس نظام کا مشاہدہ کیا ہے۔
سود مہنگائی کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ سود کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حرام قراردیا ہے۔ موجودہ دور میں مہنگائی کا ایک اور بڑا سبب ریاست کا بے محابا ٹیکس لگانا ہے۔ ٹیکس مختلف اشیا کی قیمتوں کا حصہ بن کر قیمتوں میں اضافہ کردیتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف اشیا پر 5سے 20فی صد سے زیادہ شرح تک ٹیکس عائد کردیے گئے ہیں مثلاً جی ایس ٹی، ایکسائز، کسٹم، سرچارجز، ڈویلپمنٹ چارجز اور نہ جانے کون کون سے ٹیکس۔ عام لوگوں کی خون پسینے کی کمائی کا ایک بہت بڑا حصہ ان ٹیکسوں کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زکوۃ اور صدقات کے مستحقین کو بھی نہیں بخشتا۔ اسلام ریاست کو اپنی مرضی سے ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی میں معاشی سرگرمیوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہے جیسا کہ آج کل سیلز ٹیکس لاگو کیا جاتا ہے اور نہ ہی آمدنی پر کوئی ٹیکس لیا جاتا ہے جیسا کہ انکم ٹیکس۔ اسلام کی رو سے مسلمانوں کے خون مال اور عزت پر دراندازی اور مداخلت حرام ہے۔ سوائے شرعی حق کے کسی کے مال میں سے کچھ بھی لینا ظلم اور ڈاکے کے مترادف ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے فرمایا تھا: بے شک تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری آبرو اس دن (یوم عرفہ) اس شہر (مکہ) اور اس مہینے (ذی الحج) کی طرح ایک دوسرے پر حرام ہیں۔ اسلام کی رو سے دولت مند اور غریب کا لحاظ کیے بغیر یکساں لگنے والے سارے ٹیکس حرام ہیں۔ یوں مہنگائی کی ایک اور وجہ کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جب سے بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم پرائیوٹ کمپنیوں کے حوالے کی گئی ہے تب سے یہ کمپنیاں ہر سال کئی کھرب روپے پاکستان کے عوام سے لوٹ رہی ہیں۔ تیل، گیس اور توانائی کی دیگر کمپنیوں کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے جن میں سے اکثر کو ڈالروں میں توانائی کی مہنگے داموں قیمت ادا کی جاتی ہے خواہ وہ بجلی نہ بھی پیدا کریں۔ ظلم در ظلم یہ کہ توانائی کی قیمتوں میں بڑی شرح سے شامل کیے جانے والے ٹیکس بھی ہیں۔ یوں عوام بد حال اور کاروباری لاگت آسمان پر پہنچ جاتی ہے۔ اسلامی ریاست میں قرآن وسنت حکمرانی کی بنیاد ہیں۔ توانائی اور معدنیات کے شعبوں میں بھی اسلام کے احکامات نا فذ کیے جائیں گے جن کی رو سے یہ وسائل عوام کی ملکیت ہیں۔ ریاست جن کا انتظام کرتی ہے۔ ان وسائل سے نجکاری کی صورت میں صرف چند سرمایہ دار فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ پورا معاشرہ ان سے مستفید ہوتا ہے۔ عالی مرتبتؐ کا فرمان ہے: تمام مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی آگ (توانائی) اور چراگاہیں (مسند احمد)۔ اسلام توانائی کے ذرائع کے پیداوار، ترسیل وتقسیم سب ریاست کے کنٹرول میں رکھ کر اسے عوام کو سستے داموں مہیا کرنے کو یقینی بناتا ہے۔ تاکہ عوام مہنگائی کی زد میں نہ آسکیں۔
کرنسی کی شرح تبادلہ کا جہاں تک تعلق ہے سونا چاندی کرنسی کی بنیاد ہونے کی وجہ سے ریاست اس کی شرح تبادلہ پر اثر انداز نہیں ہوسکے گی۔ ذخیرہ اندوزی اور کارٹیلز کا خاتمہ فری مارکیٹ اکا نومی کا ایک بڑا درد سر ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی اشیا کی قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مافیاز اور حکومت مل کر سپلائی ہائی جیک کرکے مصنوعی طور پر قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی، مناپلی، کارٹیل، امپورٹ ڈیوٹیاں اور ٹیکس، اسلام مہنگائی کی ہر وجہ کو ختم کرنے کے تفصیلی احکامات رکھتا ہے۔ یوں قیمتیں مافیاز کے اثرات سے آزاد ہوکر ڈیمانڈ اور سپلائی کے مطابق طے ہوتی ہیں۔ اسلام ہر قسم کی امپورٹ کو ڈیوٹی فری قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے اسلامی ریاست کے شہریوں کو پوری دنیا کے مقابلے میں اشیا کم قیمت پر دستیاب رہتی ہیں۔ اسلام مناپلی (اجارہ داری) اور کارٹیل (چند سپلائرز کی سپلائی کم کرنے کے لیے ملی بھگت) ختم کرنے کے لیے ریاست کو عمومی اختیار دیتا ہے۔ ریاست قیمت فکس کیے بغیر خود سپلائی کے میکنزم کا حصہ بن کر کارٹیل کو توڑ سکتی ہے۔ اسلام کارٹیل بنانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ رسول کریمؐ کا فرمان ہے ’’اجارہ داری کرنے والا خطا کار ہے‘‘۔ انسانیت کے دکھوں کا مداوا صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا ہونے والے خوفناک مسائل کے حل کے لیے دنیا کو ایک بار پھر اسلام کی طرف آنا پڑے گا۔