خوف پھیلانے کا ذمے دار کون ہے؟

339

آغا خان اسپتال کے ترجمان نے کہا ہے کہ کراچی میں کورونا وائرس کے واحد تشخیص شدہ مریض یحییٰ جعفری کی حالت تیزی سے بہتر ہورہی ہے جبکہ اس کے اہل خانہ کو کورونا وائرس کے ٹیسٹ منفی آنے پر اسپتال سے جمعرات ہی کو چھٹی دے دی گئی ۔ یحییٰ جعفری کی حالت بہتر ہورہی ہے اور مزید کسی شخص میں کورونا وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے ، یہ انتہائی خوش آئند بات ہے مگر کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کی سرکاری سطح پر تصدیق اور اعلان کرکے ملک کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے ، اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی ۔ اگر یحییٰ جعفری کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بارے میں اعلان کرنے سے قبل تھوڑا سا صبر کرلیا جاتا اور اس کے بارے میں مزید ٹیسٹ کرلیے جاتے تو آج پاکستان ان ممالک میں شامل نہ ہوتا جن پر کورونا وائرس کی بناء پر فضائی پابندیاں عاید کی جارہی ہیں۔ جمعرات کو سعودی عرب نے پاکستان کو اس منفی فہرست میں شامل کردیا جن پر عمرے اور سیاحتی ویزے کے تحت سعودی عرب آنے پر پابندی ہے ۔ ہر شخص کو اس کا علم ہے کہ کورونا وائرس فلو کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جو سردی میں ہی پھلتا پھولتا ہے ۔ پاکستان کے میدانی علاقوں میں سردیاں ختم ہوچکی ہیں اور موسم بہار شروع ہوچکا ہے ۔ کراچی میں تو درجہ حرات 30 درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ رہا ہے۔ ایسے میں کس طرح کورونا وائرس یا فلو کا وائرس زندہ رہ سکتا ہے ۔ اس غیر ذمہ داری کا خمیازہ ہر طرح سے ملک ہی کو بھگتنا پڑا ہے ۔ اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان ہے تو تجارت کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے ۔ کورونا وائرس کے لیے انتظامات کے نام پر الگ سے اربوں روپوں کے قرنطینہ اور اسکریننگ کے آلات وغیرہ کی ہنگامی خریداری پر اخراجات کیے جارہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے بجٹ میں کوئی رقم تو مختص نہیں تھی ، اس لیے اسے ترقیاتی کاموں کے بجٹ سے ہی نکال کر خرچ کیا جارہا ہے ۔ اس سے ایک طرف تو ترقیاتی کاموں کی رفتار سست پڑے گی تو دوسری جانب بجٹ خسارے میں بھی اضافہ ہوگا ۔ پورے ملک میں اس سے الگ خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوئی اور شہری کچھ اس انداز میں رہ رہے ہیں کہ جیسے موت کا وائرس ان پر اب حملہ آور ہوا کہ تب ہو ا۔ سرکار کی طرف سے بھی جس طرح کے اقدامات کیے جارہے ہیں ، ان سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کچھ اس طرح کا جرثومہ ہے جو ہر شخص پر فضا سے ہی حملہ آور ہوجائے گا اور جو بھی شخص اس میں مبتلا ہوا ، وہ موت کا لازمی شکار ہوجائے گا ۔ حالانکہ ایسا ہے نہیں ۔ روزنامہ جسارت میں جمعہ کی اشاعت میں بھی اس بارے میں آگاہی کے لیے خبریں دی گئی ہیں جن میں اعداد و شمار کی مدد سے بتایا گیا ہے کہ فلو جیسی بے ضرر سمجھی جانے والی بیماری سے دنیا بھر میں سالانہ ساڑھے چھ لاکھ افراد مر جاتے ہیں ۔ چونکہ فلو کے بارے میں کوئی بھی حکومت ایسے اقدامات نہیں کرتی جس طرح سے کورونا وائرس کے بارے میں کیے جارہے ہیں ، اس لیے کوئی بھی فلو کے بارے میں فکرمند نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی باقاعدہ تحقیقات کی جائے کہ وہ کون شخص ہے جس نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے پاکستان کو کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل کروایا۔