یکساں نصاب تعلیم اور ریاست مدینہ کے دعویدار

308

جماعت اسلامی نے یکساں نصاب تعلیم سے متعلق عمرانی حکومت کا تیار کردہ مسودہ مسترد کردیا ہے اور اسے آئین پاکستان اور قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اس حوالے سے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے تیار کردہ مسودے میں سارا زور ہیومن ویلیوز پر دیا گیا ہے جب کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور قرآن و سنت کے پیش کردہ اصولوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہیومن ویلیوز کی آڑ میں ملک کے نظریاتی تشخص کو ختم کرنا چاہتی ہے جس کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے یکساں نصاب تعلیم کا مسودہ واپس نہ لیا اور اس کی ازسرنو تشکیل کے لیے قومی سطح پر مشاورت نہ کی تو جماعت اسلامی اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائے گی اور اس سلسلے میں مدارس کی تنظیموں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا کیوں کہ حکومت اسی نصاب کو دینی مدارس میں بھی نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان اگرچہ اپنے دعوئوں اور وعدوں کے بارے میں بلاتکلف یوٹرن لینے کی غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں، کون سا دعویٰ ہے جس پر انہوں نے یوٹرن نہیں لیا اور کون سا وعدہ ہے جس پر انہوں نے پسپائی اختیار نہیں کی لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنانے کا ان کا دعویٰ ابھی تک برقرار ہے اور وہ گاہے گاہے اس کا ذِکر کرتے رہتے ہیں۔ البتہ ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ خود عمران خان نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا اور نہ ہی ان کے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج نے انہیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ ریاست مدینہ کا بنیادی امتیاز ہی یہ تھا کہ اس میں اسلام کو مرکزیت حاصل تھی اور اسلام ایک مربوط اور مکمل نظام حیات کی حیثیت سے قرآن و سنت کے وضع کردہ اصولوں سے عبارت تھا۔ ریاست مدینہ میں اس بات کا تصور بھی ممکن نہ تھا کہ کوئی کام اسلام سے ہٹ کر یا اسے نظر انداز کرکے کیا جائے اور اس کے باوجود ریاست مدینہ میں اسلام کی مرکزیت برقرار رہے۔ ریاست پاکستان کے آئین میں بھی اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اس مملکت خداداد میں کوئی کام اسلام کے منافی نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس پر خلوصِ دل سے عمل کیا جائے تو بلاشبہ ریاست پاکستان، ریاست مدینہ کا ماڈل بن سکتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں ان میں سے کسی نے بھی اسلام کی مرکزیت کو قبول نہیں کیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ عمرانی حکومت سے پہلے کسی حکومت نے بھی پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ نہیں کیا تھا، ان کے نزدیک پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا سرے سے کوئی آئیڈیل ہی نہ تھا جب کہ عمران خان تکرار کے ساتھ اسے ریاست مدینہ کے مماثل بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ انہوں نے میانوالی کی اپنی حالیہ تقریر میں بھی یہ دعویٰ دہرایا ہے لیکن ان کے سارے کاموں پر ایک نظر ڈالی تو اس میں ریاست مدینہ کے بنیادی کردار یعنی اسلام کا کہیں پر تو نظر نہیں آتا۔ اس کی تازہ ترین مثال یکساں نصاب تعلیم کا وہ مسودہ ہے جو حکومت نے حال ہی
میں جاری کیا ہے۔ اس میں کہیں بھی اسلام اور اسلامی اقدار کا ذِکر نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ’’ویلیو ایجوکیشن‘‘ کے عنوان سے جو نصابی کتابچہ فراہم کیا گیا ہے وہ ہیومنزم کے فلسفے سے ماخوذ ہے، جس کا اپنا تصور کائنات ہے اور جو کسی خدائی نظام اور انسانوں کی ہدایت کے کسی خدائی پیغام کو نہیں مانتا۔ مغربی ملکوں کا تصور سیاست اسی فلسفے اور نظریے پر مبنی ہے۔ اس نظریے کے مطابق گوری چمڑی کے لوگ سپرہیومن جب کہ رنگدار اور کالی چمڑی کے لوگ انسانیت کے درجے سے گرے ہوئے ہیں اور وہ انہیں ہیومنزم کے نظریے کے تحت انسانیت سکھانا چاہتے ہیں۔ مجوزہ یکساں نصاب تعلیم کے مسودے میں بھی اسی نظریے کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں اسلام ایک مکمل نظام حیات کی حیثیت سے تعلیم سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور پاکستان کا آئین بھی یہ تقاضا کرتا ہے کہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے اور توحید رسالت اور آخرت کی بنیادی اقدار کو تعلیم کے پورے نظام کی اساس بنایا جائے۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ حلال کیا ہے، حرام کیا ہے، خیر کیا ہے، شر کیا ہے، ثواب کیا ہے اور گناہ کیا ہے۔ جب کہ ہیومنزم کا نظریہ ان اخلاقی اقدار سے خالی ہے۔ اس طرح مجوزہ نصاب تعلیم کے تحت جو افراد یا نسل تیار ہوگی وہ اسلام کی بنیادی قدروں اور اس کے اخلاقی مزاج سے بالکل کٹ کر رہ جائے گی۔ اس نصاب تعلیم میں ماں بولی کا تو ذِکر ہی کیا، قومی زبان اردو کو بھی اولین ترجیح نہیں دی گئی۔ حالاں کہ خود عمران خان قومی زبان کے بارے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں لیکن
جن لوگوں نے نصاب تعلیم کا مسودہ تیار کیا ہے ان کے نزدیک اردو ثانوی حیثیت رکھتی ہے جب کہ ماں بولی یعنی علاقائی زبانیں پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتیں۔ حالاں کہ لسانی ماہرین کا کہنا ہے اور پوری دنیا میں ان کی اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ بچے اپنی ماں بولی میں زیادہ جلدی سیکھتے اور سمجھتے ہیں اور کم از کم پانچویں جماعت تک انہیں ضرور ان کی ماں بولی میں تعلیم دی جانی چاہیے۔ اب یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ شہباز شریف نے اپنے دور حکومت میں پنجابی کی سرپرستی کرنے کے بجائے انگریزی کو پہلی جماعت سے لازمی قرار دے دیا تھا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ پنجاب میں تعلیم کی شرح گر گئی اور دیہی علاقوں میں بہت سے لوگوں نے بچوں کو سرکاری اسکولوں سے اُٹھا لیا۔
پاکستان کا نصاب تعلیم ایک مدت سے مغربی استعماری طاقتوں کا ہدف ہے۔ وہ اسے ایک خدا پرست نصاب سے تبدیل کرکے ایک بے خدا اور آزاد خیال نصاب میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ یہ عمل نائن الیون کے بعد تیز تر ہوگیا ہے۔ سونیا گاندھی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ پاکستان کو ہتھیاروں سے فتح کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہماری ثقافت نے تو اسے ایک گولی چلائے بغیر فتح کرلیا ہے۔ یہی معاملہ نصاب تعلیم کا بھی ہے۔ استعماری طاقتیں پاکستان پر اپنی مرضی کا نصاب تعلیم مسلط کرکے اسے ذہنی طور پر اپنا غلام بنانا چاہتی ہیں اور پاکستان کے موجودہ حکمران ان کا آسان ہدف ثابت ہورہے ہیں۔ جماعت اسلامی نظریاتی محاذ پر خم ٹھونک کر کھڑی ہے، اسے مذہبی جماعتوں اور دینی مدارس کی تنظیموں کے تعاون سے مجوزہ نصاب تعلیم کے خلاف ایک بھرپور تحریک چلانی چاہیے تا کہ نئی نسل کو نظریاتی اور اخلاقی بحران سے بچایا جاسکے۔