محمد اکرم خالد
چالیس سال میں یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ میرے ملک کا وزیر اعظم اپنی گھریلو غربت سے تنگ دکھائی دے رہا ہے۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو کیا یہ درست نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے منصب پر براجمان ہونے والی شخصیت ریاست پاکستان کی ذمے داری میں شامل ہوجاتی ہے یعنی جب تک وہ شخصیت وزیر اعظم کے منصب پر قائم رہتی ہے تو اس کی کفالت ریاست پاکستان کو انجام دینی پڑتی ہے اس کی رہائش اس کی سیکورٹی اس کے سفری اخراجات سے لے کر ضرورت کی ہر اشیا اس کو بن کہے مہیا کی جاتی ہیں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب یہ شخصیت وزیر اعظم کے منصب سے فارغ ہوتی ہے تو بھی اس کو کم وبیش اسی طرح کی سہولتیں میسر رہتی ہیں اسی طرح اس کی کابینہ سمیت ارکان پارلیمنٹ سینیٹر حضرات کو بھی کم وبیش ایسی ہی سہولتیں میسر ہیں یعنی اگر یہ کہا جائے کہ قومی خزانے کا ایک بڑا حصہ حکومت اور اپوزیشن کی مراعات پر برباد کر دیا جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
چند دن پہلے میرے وزیر اعظم نے بڑی ہی معصومیت سے فرمایا تھا کہ میری تنخواہ میں بھی میرا گزارہ نہیں ہوتا یعنی دولاکھ کی تنخواہ میں میرے وزیر اعظم کا گزارہ نہیں ہوتا تو پھر ایک غریب مزدور کا بیس ہزار میں ایک بزرگ پنشنرکا چھ ہزار پانچ سو میں کیسے گزارہ ممکن ہوسکتا ہے کرائے کا گھر، گیس، بجلی کے اضافی بل، بڑھتی ہوئی مہنگائی، علاج، تعلیم اور دیگر ضروریات کو کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے اس کا انداز تو شاید وزیر اعظم صاحب کو اب ہوگیا ہوگا بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر دور میں معزز منصب پر فائز شخصیات اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی مراعات میں تو ہوش روبا اضافہ کیا جاتا رہا ہے مگر ایک مزدور کی تنخواہ میں ایک بزرگ پنشنر کی پنشن میں دس فے صد اضافہ کر کے ہمیشہ اس کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی رہی ہے اوپر سے مہنگائی کا ایسا سونامی چھوڑا جاتا ہے کہ یہ غریب اس مہنگائی کے سونامی میں ڈوب کر مر جاتا ہے۔
اس قوم نے حکمرانوں سے کبھی بھی اشرافیہ جیسی زندگی گزارنے کی خواہش نہیں کی، کبھی اعلیٰ مکان کی خواہش نہیں رکھی بس دو وقت کی روٹی، معقو ل روزگار، بچوں کے لیے معیاری سرکاری تعلیم، ان کے بہتر علاج اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر انصاف کی بھیک کے سوا کچھ نہیں مانگا۔ مگر بد قسمتی اس غریب قوم کی کہ اس کو یہ سہولتیں دینے کے بجائے روز بروز ان سے یہ مختصر سہولتیں بھی چھینی جارہی ہیں۔ تجاوزات کے نام پر غریب کا مکان گرایا جارہا ہے مزدور کا ذریعہ ختم کیا جارہا ہے۔ مہنگائی کا ایسا طوفان پیدا کر دیا گیا ہے کہ غریب ایک روٹی تک محدود ہوگیا ہے اشرافیہ کو نوازنے کے لیے کبھی ٹماٹر کبھی آٹا تو کبھی چینی کا بحران پیدا کر دیا جاتا ہے اور افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے وزراء اس بحران کو بھی غیر سنجیدہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ٹماٹر کی جگہ دہی چائے بغیر چینی اور روٹی کا استعمال کم کریں۔ ایسے مشورے دیتے ہیں جن سے غریب کے زخموں پر تیزاب ڈالا جا رہا ہو یا پھر ان تمام مسائل کا ذمے دار اپوزیشن کو ٹھیرا دیا جاتا ہے۔ یہ وہ غیر سنجیدہ طرز حکمرانی ہے جس نے اس ملک کو بحران زدہ ملک بنادیا ہے جو حکمران ستر برس میں ۲۲ کروڑ عوام کو ایک معیاری زندگی نہیں دے سکے، جو ہر روز غریب کے منہ سے نوالہ چھینے کی سازش میں مصروف ہیں، جو اس قوم کے مسائل کو غیر سنجیدہ سمجھ کر غریب کے مسائل کا مذاق اُڑا رہے ہیں ان سے خیر کی توقع کرنا خود اپنے آپ سے دشمنی کے مترادف ہے۔ جو ارباب اختیار اپنی شہ رگ کشمیر کو محفوظ نہیں رکھ سکے، جو کشمیر کی آزادی کی منزل سے بہت دور ہوگئے ہیں، جو چھ ماہ سے لگے کرفیو کو ہٹوانے میں ہر طرح ناکام نظر آتے ہوں، جو کشمیر ی عوام کے بہتے خون پر بھی سیاست کر رہے ہوں، ایسے حکمرانوں سے اس قوم کو کوئی خیر کی اُمید نہیں ہونی چاہیے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم کی زیر صدارت ایک اجلاس میں گیس، بجلی، پٹرول کی قیمتوں میں استحکام اور ان میں ممکنہ حد تک کمی لانے کے حوالے سے غور کیا گیا اور عام آدمی کو ہر ممکنہ ریلیف فراہم کرنے کی تجاویز پر بھی غور کیا گیا ساتھ ہی وزیر اعظم کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مہنگائی کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، اگر مہنگائی پر قابو نہیں پایا گیا غریب کو ریلیف فراہم نہیں کیا گیا تو ہمارا حکومت میں رہنے کا جواز نہیں بنتا۔ اگر محترم وزیر اعظم واقع مہنگائی کے طوفان سے بے خبر ہیں اور وہ اس بڑھتی مہنگائی سے تنگ غریب عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے سنجیدہ ہیں تو پھر یہ قوم ان کو ایک بار پھر یہ موقع دیتی ہے کہ وہ مہنگائی کے اس طوفان پر ہنگامی بنیادوں پر قابو کرنے کے لیے کار کردگی دکھائیں، ڈیڑھ سال بعد ہی صحیح کم از کم اس قوم کو مہنگائی سے تو نجات حاصل ہوسکے اگر وزیر اعظم کی ۲لاکھ کی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا تو وزیر اعظم عمران خان صاحب کو سوچنا ہوگا کہ بیس ہزار کمانے والا مزدور کیسے گزر بسر کرتا ہوگا۔ اگر ان تمام حقائق کے باوجود بھی ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت اگر کم از کم مہنگائی کے بحران پر قابو نہ پاسکی تو جلد ملک بھر میں جرائم اور کرپشن کی شرح میں ممکنہ اضافہ ہوسکتا ہے کیوں کہ جب ریاست اپنی ذمے داریوں سے نظر چرائے گی تو عوام اپنے فیصلے خود کرنے پر مجبور ہوجائیں گئے۔