حشمت اللہ صدیقی
وہ تاریک راہوں میں اللہ کا ایک روشن چراغ تھا جس کی زندگی کے سفر کا آغاز انہی راہوں سے ہوا۔ ایک اجنبی سرزمین پر ایک ایسے سفر سے آیا جو تاریخ کا ایک مقدس سفر تھا جو بے سرو سامانی کی حالت میں کیا گیا لیکن اس کا جذبہ جواں تھا وہ ایک سچا مسلمان و حریت فکر کا مجاہد تھا جس کے عزم و حوصلے نے آزادی کے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ یہ سفر ایک لمبے عرصے کی آزادی کی جدوجہد اور عزم و ہمت مرداں کا سفر تھا۔ اس کے سفر کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کا نفاذ تھا جس کے لیے اس نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی، وہ آج کامیاب و کامران ہو کر اپنے ربّ سے ملنے ہزاروں سوگواروں کو چھوڑ کر تنہا چلا گیا، وہ کراچی شہر کے درودیوار کو اُداس و مغموم چھوڑ گیا۔ وہ اس شہر کا ایک ایسا سپاہی تھا جس نے شہر کے خوفناک و ویران سایوں کو ختم کرکے اس شہر کو چمکتا دمکتا اور پُررونق بنایا، یہ راہ حق کا عظیم مسافر بابائے کراچی نعمت اللہ خان تھا جس کے سفر آخرت میں شرکت کے بعد میرا قلم ساتھ نہیں دے رہا کہ میں اُسے مرحوم لکھوں وہ تو زندہ و جاوید ہے، اس کی زندگی کی گواہی تو شہر کا کونہ کونہ دے رہا ہے۔
جانے والے تجھے روئے گا برسوں زمانہ
نعمت اللہ خان اہل کراچی کے لیے ایک نعمت تھے۔ انہوں نے شہر کی میئر شپ کے دوران جس عزم و دیانت کے ساتھ اس شہر کی خدمت کی، اس کی ایک جھلک ان کے جنازے میں موجود ہزاروں شہریوں کی موجودگی سے ملتی ہے جو انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اُمڈ پڑے تھے، ہر آنکھ اشکبار تھی، گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق و کراچی کے رہنما و ہزاروں کارکنان و شہریوں، مختلف مکاتب فکر کے علما و دینی جماعتوں کے کارکنوں، ایم کیو ایم کے رہنما میئر کراچی، مزدور یونین و دیگر سیاسی، مذہبی تنظیموں کے نمائندے محسن کراچی کے جنازے میں شریک تھے اور ان کی شرکت ان سے عقیدت کی گواہی تھی۔ وہ بلا امتیاز ملک و ملت ہر ایک کے لیے کراچی شہر کے حقیقی ترجمان تھے، وہ ایک سچے محب وطن، شہر کراچی کے حقیقی قائد، دیانت و شرافت کے پیکر تھے، ان کا حسن اخلاق و کردار اپنے اور مخالفین کے لیے ایک جیسا تھا، وہ سیاسی اختلاف میں برداشت و رواداری کے قائل تھے، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے مخالفین بھی ان کی دیانت و شرافت کی گواہی دے رہے ہیں، ان کی رحلت سے آج یہ شہر یتیم ہوگیا ہے۔ نعمت اللہ خان نے سٹی ناظم کی حیثیت سے کراچی کے سیاسی، سماجی مسائل کو اُجاگر کیا اور سخت محنت و طویل جدوجہد کے ذریعے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ کراچی کو اس کا حق دیں۔ چناں چہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں انہیں اپنے مقصد میں کامیابی ملی اور کراچی کو ترقیاتی فنڈ میں بھرپور حصہ ملا جو نعمت اللہ خان کی خصوصی کاوشوں کا نتیجہ تھا اس کی کوششوں کے نتیجے میں اہل کراچی کے لیے دل کا اسپتال کا قیام، پارکوں کی کثرت، کھیل کے میدان، ٹرانسپورٹ کے مسائل، ثقافتی و اسلامی سینٹر و دیگر سہولتیں حاصل ہوئیں۔ انہوں نے کراچی کی ترقی و بحالی کے لیے میئر کے عہدے کو ایک امانت کے طور پر استعمال کیا اور ان کے دور میں اداروں میں کرپشن کا خاتمہ ہوا جس کی گواہی مخالفین بھی دے رہے ہیں۔ ان کا یہ کردار ایک مثال و مشعل راہ ہے۔ انہوں نے کراچی کے امن کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھائی، وہ لسانی، علاقائی رنگ و نسل کے تعصب سے پاک سیاست کے امین تھے، وہ شہریوں کی بلاامتیاز خدمت کو اپنا فخر سمجھتے تھے، جماعت اسلامی کے ایک رکن کی حیثیت سے بھی ان کی دینی خدمات نمایاں ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے دینی اتحاد، امن و ہم آہنگی، فرقہ وارانہ یکجہتی، ملکی اتحاد و سالمیت و اتحاد امت کے لیے جدوجہد کی علامت تھے۔ دینی اتحاد کے لیے اُٹھنے والی ہر آواز کا ساتھ دیتے تھے اور دین کا کام کرنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے۔ اسی سلسلے میں راقم الحروف کے بعض اخباری مضامین کے ذریعے اتحاد امت کی تجاویز سے انہوں نے اتفاق کرتے ہوئے اپنے ایک خط کے ذریعے حوصلہ بڑھایا اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا، اکثر سرکاری امن اجلاسوں کے دوران ملاقاتوں و گفتگو میں بھی وہ ایک درد مند دائمی اتحاد و امت کے مخلص نظر آئے۔ نعمت اللہ خان صاحب کا شمار جماعت اسلامی کراچی کے سینئر ترین اکابرین میں ہوتا ہے، وہ بانی جماعت مولانا مودودیؒ کی تیار کردہ جماعت کے ایک روشن چراغ تھے، ان کی رحلت سے آج یہ چراغ بجھ گیا اور سفر زندگی تمام ہوا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
وہ آئے بزم میں اتنا تو میرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
دعا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین)
سبزئہ نُورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آسمان تیری لحد پہ شبنم آفشانی کرے