کشمیر میں نئے بھارتی قوانین اور پاکستانی حکمران

322

عبار بھارت سے جیسی توقع کی جا رہی تھی اس نے پانچ اگست کے سرپرائز کے بعد پاکستانی حکمرانوں کی پُھس پُھسی دھمکیوں اور احمقانہ اقدامات کے نتیجے میں اپنے قدم آگے ہی بڑھائے ہیں۔ بھارت نے دفعہ 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا پھر جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا اب ایک اور سرپرائز دیا ہے، 37 نئے قوانین بنا کر کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب بھارتی شہری مقبوضہ کشمیر میں اراضی خرید سکیں گے اور جائداد بھی بنا سکیں گے۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کی موجودگی میں بھارت یہ نہیں کرسکتا تھا لیکن چونکہ ان آرٹیکلز کی منسوخی پر پاکستان نے کوئی ٹھوس ردعمل نہیں دیا اس لیے بھارتی حکمران نت نئے سرپرائز دے رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک حملہ ہو رہا ہے۔ افغان امن معاہدے کا زخم بھی بھارت کو لگا ہے۔ چنانچہ عین معاہدے والے دن بھارت نے ان قوانین کی منظوری دی ہے ان میں سروسز ایکٹ، انکم ٹیکس ایکٹ، گڈز اینڈ سروسز ٹیکس ایکٹ، مردم شماری ایکٹ، دیوالیہ پن ایکٹ وغیرہ بھی جموں کشمیر میں نافذ ہو جائیں گے۔ پاکستان کی جانب سے عالمی برادری کو دہائیاں دی جا رہی ہیں اور عالمی برادری اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ آر ایس ایس کے غنڈوں نے دہلی میں قتل عام کیا۔ عالمی برادری مداخلت کرے۔ دہلی فسادات خطے کے لیے تباہ کن ہوں گی۔ وزیراعظم یہ بتائیں کہ دہلی کے فسادات خطے کے لیے خطرہ کیسے بنیں گے جب بھارتی حکومت اور انتہا پسند یکطرفہ طور پر قتل عام کر رہے ہیں کوئی ملک مداخلت نہیں کر رہا تو خطے کے لیے خطرہ کیونکر پیدا ہوگا۔ اس وقت پاکستانی حکمرانوں نے کشمیر کے اپنے مسئلے کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے دیا ہے۔ ہندوستان اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا اس ملک میں ان کے داخلے پر پابندی کے قوانین منظور کرکے مختلف تاریخوں کا تعین کرکے پہلے ان کا راستہ روکا گیا پھر جو لوگ آچکے ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا گیا جو آج کل مودی سرکار مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے کہ اپنے باپ دادا کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ لائو۔ پچھلے سے پچھلے شناختی کارڈ لائو۔ پانچ پانچ مرتبہ شناختی کارڈ بنوانے والوں کو محض اورنگی ٹائون یا اس سے ملحقہ آبادی سے تعلق رکھنے پر مشتبہ قرار دے دیا گیا۔ اب مودی یہی کر رہا ہے۔ جب پاکستانی حکام یہ کر رہے تھے تو بھارت نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اب پاکستان کچھ نہیں کہہ رہا۔ کیونکہ دونوں ان معاملات کو ایک دوسرے کا اندرونی معاملہ تصور کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے صرف خاموش رہنے یا آدھے گھنٹے سڑک پر کھڑے رہنے پر اکتفا کرتے رہے۔ اب اس کو خطے کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ جہاں تک اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کا تعلق ہے تو ہمارے حکمرانوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے یہ ادارے مسلمانوں کے کسی کام کے نہیں۔ امت مسلمہ میں شامل ممالک کے حکمران بھی زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی دو رنگی تو دیکھیں پاکستان آکر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو لازمی قرار دیا اور امریکا جا کر بھارت کے ہاتھوں کشمیریوں اور دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام پر محض تشویش کا اظہار کردیا۔ اقوام متحدہ اگر سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل کرے تاکہ کشمیر میں استصواب رائے کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔ اقوام متحدہ نے جس علاقے کو متنازع تسلیم کیا ہوا ہے بھارت اسے اپنے ملک میں کیسے شامل کر سکتا ہے۔ اس پر کوئی اقوام متحدہ سے پوچھے کہ اس پر اقوام متحدہ نے بھارت کے خلاف کیا کارروائی کی۔ مقبوضہ کشمیر کی ایک کروڑ سے زیادہ آبادی کو سات ماہ سے یرغمال بنا رکھا ہے اس پر اقوام متحدہ نے کیا اقدام کیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمراں خود کشمیر کے لیے جرأت مندانہ قدم اٹھائیں تو اقوام متحدہ سمیت تمام ادارے خود چل کر مسئلہ کشمیر حل کرانے آئیں گے۔ یہ درست ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر خطے کے لیے خطرناک بن سکتا ہے، کشمیر فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے تو اس کو حل کرانے میں دنیا دلچسپی لے گی۔ لیکن بھارت کے اقدامات سے کشمیر فلیش پوائنٹ نہیں بنے گا۔ پاکستان کے ردعمل کی شدت کے مطابق یہ فلیش پوائنٹ بنے گا اور یہ کام پاکستان کی قیادت کو کرنا ہے۔