امریکا نے معاہدہ سبوتاژ کر دیا

738

طالبان اور امریکا کے مابین امن معاہدہ کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ امریکا ہی کی کٹھ پتلی حکومت کے سربراہ اشرف غنی نے امن معاہدے کی اہم شق قیدیوں کی رہائی سے انکار کردیا ۔ اشرف غنی کی جانب سے امن معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کے عندیہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ افغانستان میں امن معاہدے کے عملی اثرات سامنے نہیں آئیں گے اور افغانستان یوں ہی میدان جنگ بنا رہے گا۔ یہ کھلا راز ہے کہ اشرف غنی امریکی فرستادہ ہیں اور انہیں افغانستان میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہی لایا گیا تھا ۔یوں اشرف غنی کی جانب سے معاہدے کو نہ ماننے کا واضح مطلب یہی ہے کہ امریکا ہی درپردہ اس معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہیں چاہتا ۔ امریکی رویے اور افغان حکومت کے انکار کے بعد طالبان نے بھی حملے شروع کردیے ہیں گویا عملاً معاہدہ سبوتاژ ہو گیا۔ امریکا نے جس انداز میں معاہدے پر دستخط ہوتے ہی کہا تھا کہ اس پر عملدرآمد کی ذمہ داری طالبان پر ہے اور پھر اس کے بعد مائیک پومپیو اور ٹرمپ نے جو دھمکی آمیز بیانات دیے تھے وہی معنی خیز اور مشتبہ تھے ۔ نائن الیون کے بعد جس طرح سے ایک لایعنی الزام لگا کر امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اور اس کے بعد سے اب تک افغانستان میں جو کشت و خون ہوا ہے ، اس کی براہ راست ذمہ داری امریکا پر ہی عاید ہوتی ہے ۔ قطر میں ہونے والے مذاکرات کا مطلب یہی ہے کہ یہ مذاکرات پینٹاگون کی سینٹرل کمانڈ برائے ایشیا کے ہیڈ کوارٹر میں ہوئے ہیں ۔ اب جبکہ امریکا کی مرضی کے مطابق معاہدہ طے پاگیا ہے تو حملہ آور ہونے کے ناتے اس پر کامیاب عملدرآمد کی ذمہ داری بھی امریکیوں پر ہی ہے ۔ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی اور افغان قیدیوں کی رہائی ، دونوں ایسے نکات ہیں جس پر عملدرآمد امریکیوں کو ہی کرنا ہے ، اس طرح اس معاہدے کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری بھی امریکا پر براہ راست عاید ہوتی ہے ۔ اگر افغان قیدیوں کی رہائی امریکیوں کے بس کی بات نہیں تھی تو انہوں نے اسے معاہدے کا حصہ کیوں بنایا تھا اور اس پر عملدرآمد پر آمادگی کیوں ظاہر کی تھی ۔ اب امریکی وزیر دفاع مائیک پومپیو نے مزید فرمایا ہے کہ امریکا طالبان معاہدے کے کئی نکات خفیہ بھی ہیں اور وہ محض لکھے گئے معاہدے کے پابند نہیں ہیں ۔ امریکا نے طالبان کے ساتھ افغانستان میں امن کا معاہدہ کیا ہے یا کوئی سازش کی ہے جو کئی نکات خفیہ بھی رکھے ہیں اور اسے وہ اقوام عالم کے سامنے لانے کو تیار نہیں ہیں ۔ جب معاہدے کے دوسرے دن ہی یہ رویہ اختیار کیا جائے کہ ہم تحریری نکات کو ماننے کے پابند نہیں ہیں تو یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ جناب جب آپ طے کردہ تحریری نکات کو ماننے کے پابند نہیں ہیں تو پھر غیر تحریری نکات کو ماننے کے پابند کس طرح ہوں گے ۔ کیا امریکی حکام کو ابھی تک اس کا علم نہیں ہے کہ کوئی بھی معاہدہ کیا اسی لیے جاتا ہے کہ اس پر عملدرآمد کیا جائے گا ۔ اسے ضبط تحریر میں اسی لیے لایا جاتا ہے کہ تنازعہ کی صورت میں وہ الفاظ موجود ہوں جن پر معاہدہ کیا گیا ہے ۔ امریکی حکام کو اب اس امر کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ دنیا بھر میںخونریزی کا براہ راست سبب بنتے رہے ہیں ۔ انہیں اپنے اس ڈریکولا ئی کردار سے پیچھا چھڑا کر اب ایک مہذب قوم بن جاتا چاہیے ۔ گزشتہ بیس برسوں میں امریکا نے افغانستان میں کون سی کامیابی حاصل کرلی جو اب وہ مزید دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ افغانستان کیا ، امریکا کی تاریخ تو ویتنام ، کمبوڈیا ہر جگہ ہی ناکامی سے عبارت ہے ۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے معاہدے کو ٹرمپ اور پومپیو کو غنیمت جاننا چاہیے اور فوری طور پر کان دبا کر واپسی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ مزید امریکی فوج افغانستان لاکر ٹرمپ امریکا کو ایک جانی بوجھی دلدل میں مزید دھکیلیں گے اور بس ۔ وہ طالبان یا افغانستان کا مزید کیا بگاڑ لیں گے ۔ البتہ امریکا کی جگ ہنسائی کی مدت میں ضرور اضافہ ہوجائے گا ۔ اس وقت امریکا پر قرض کی مالیت 23 ٹریلین ڈالر سے زاید ہے جو امریکا کی مجموعی قومی پیداوار کا 107 فیصد ہے یعنی امریکی حکومت اس وقت دیوالیہ ہوچکی ہے اور مصنوعی تنفس پر زندہ ہے ۔ امریکا کے افغانستان میں مزید رہنے کا مطلب ہے اس قرض میں مزید اضافہ ۔ ٹرمپ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقوم کو افغانستان میں دھوئیں میں اڑا رہے ہیں جس کا معاشی نتیجہ امریکیوں کے لیے کسی طور بہتر نہیں ہے ۔ اس سے صرف امریکا ہی متاثر نہیں ہے بلکہ پوری دنیا خصوصی طور پر ایشیا شدید متاثر ہے ۔ امن کا مطلب ہی خوشحالی ہے ۔ یہ اقوام عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکا کو مجبور کریں کہ نہ صرف معاہدے کے تمام نکات کو منظر عام پر لایا جائے بلکہ تمام نکات پر ان کی روح کے مطابق بھرپور اور فوری عمل کیا جائے ۔ افغانستان میں امریکا اپنے ایجنٹوں کو لگام دے اور ان کے ذریعے امن و امان کو تباہ نہ کرے ۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کریں اور اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے سے باز رہیں ۔ افغانستان میں کس کی حکومت ہونی چاہیے ، یہ افغان عوام کا بنیادی حق ہے ۔اس کی اجازت نہ تو امریکا کو ہونی چاہیے اور نہ کسی پڑوسی ملک کو ۔ اسی طرح افغانستان میں طرز حکمرانی کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی افغان عوام ہی کو ہے ۔ امریکا اور افغانستان کے پڑوسی ممالک اگر افغانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو یہ افغانوں پر بھی رحم ہوگا اور پڑوسی ممالک کے لیے خود بھی باعث امن و رحمت ہوگا ۔