کہانی تباہ حال کڈنی ہل پارک کو بحال کرنے کی

359

عدالت عظمیٰ نے کڈنی ہل پارک کو مکمل طور پر بحال کرانے کے لیے حکم دیا جس کا ٹاسک میٹرو پولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمن کو دیا گیا ہے کہ وہ جلد سے جلد کڈنی ہل پارک سے ہر طرح کی تجاوزات ختم کرکے اسے اس کی اصل حالت میں بحال کریں اور شہریوں کے لیے تفریح کا ذریعہ پیدا کریں۔ میٹروپولیٹن کمشنر نے عدالت عظمیٰ کا حکم ملتے ہی جنگی بنیادوں پر کڈنی ہل پارک کی بحال کا کام شروع کیا اور تقریباً دو ماہ کی مدت میں یہاں سے تجاوزات کا خاتمہ کرکے تجاوزات مافیا کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ تاہم 6 فروری کو عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں کڈنی ہل پارک کی زمین پر غیر قانونی قبضے کے معاملے کی سماعت ہوئی جس میں سابقہ حکم پر عمل درآمد کے حوالے سے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کے استفسار پر کمشنر کراچی نے بتایا کہ ہم نے تمام زمین پر قائم قبضے ختم کرا دیے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’’کمشنر کراچی صاحب، ایسا نہیں، قبضے اب بھی ہیں‘‘۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’’کیا کہ کڈنی ہل کی 62 ایکڑ زمین کراچی والوں کو مل گئی؟‘‘ عدالت کو دوران سماعت خاتون شہری نے بتایا کہ یہ زمین مجموعی طور پر 85 ایکڑ ہے جس پر ایک اسکول کا قبضہ بھی ہے۔
میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف کا کہنا ہے کہ مذکورہ پارک کی حالت بہترین کردی گئی۔ اسے جلد شہریوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ کراچی کے علاقے پرانی دھوراجی، بہادرآباد اور شہید ملت روڈ کے سنگم میں فاران سوسائٹی کے قریب واقع کڈنی ہل پارک کو ’’کڈنی‘‘ کے نام سے اس لیے منسوب کیا گیا تھا کہ اس کے 62 ایکڑ رقبے پر اراضی کڈنی (گردہ) جیسی ہے۔ اس پارک کی اراضی کو کراچی ڈیلپمنٹ اتھارٹی نے پارک کے لیے مختص کرکے یہاں پارک بنایا تھا۔ تاہم 1974 میں اس پارک کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حوالے کردیا گیا تاکہ یہاں کے ایم سی اس کا انتظام سنبھال سکے لیکن 1974 تا 1979 تک منتخب بلدیہ نہ ہونے کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہونے اور میئر عبدالستار افغانی کی قیادت میں منتخب بلدیہ عظمٰی کے وجود میں آنے کے ساتھ پورے بلدیاتی نظام کا بھی احیاء ہوا اور شہر میں ہلی بار ترقیاتی کام کرائے گئے اسی دور میں سفاری پارک سمیت شہر کم ازکم 57 پارکوں کا وجود عمل میں لایا گیا۔ جبکہ کڈنی ہل سمیت دیگر پارکوں کو ترقی دی گئی۔ لیکن عبدالستار افغانی کی بلدیہ کو مسلم لیگ کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ کے حکم سے تحلیل کیے جانے کے بعد ایک بار پھر کڈنی ہل پارک ہی کیا شہر کے تمام علاقوں کی حالت بھی خراب ہوگئی۔ جبکہ کڈنی ہل پارک کی زمین پر قبضہ کیا گیا بلکہ یہاں ناجائز تعمیرات بھی کرلی گئیں۔ جس کے نتیجے میں یہاں کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی کام کا آغاز نہیں ہوسکا لیکن اب عدالت عظمیٰ کے حکم پر تمام متنازع قبضوں کو ختم کرکے اس جگہ کو تجاوزات سے پاک کرایا گیا۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میٹروپولیٹن کمشنر نے عدالت کے حکم پر ذاتی دلچسپی لے کر بغیر کسی اضافی اخراجات کے اور کے ایم سی کے وسائل اور افرادی قوت سے کام لیتے ہوئے اس پارک کو اپنی اصل حالت میں بدل دیا۔ حالانکہ پارک میں موجود تجاوزات کو ہٹانا بڑا مسئلہ بھی تھا کیونکہ یہاں لوگوں نے گھر اور دکانیں بھی تعمیر کی ہوئی تھیں۔ جبکہ پارک کے کھلے حصے پر مافیا نے سیکڑوں چارپائیاں بچھا کر اسے سرائے خانہ بنایا ہوا تھا۔ بعض افراد نے بھینسوں باڑے بھی قائم کیے ہوئے تھے، اس کے علاوہ کچرا چننے والوں نے اسے کچرا اور کباڑ کا اسٹور بنایا ہوا تھا جہاں لاکھوں ٹن کباڑ اور کچرا جمع کیا ہوا تھا۔
کیونکہ بلدیہ عظمٰی کا محکمہ باغات اس پارک سے مکمل غافل تھا جس کی وجہ سے سیکورٹی نام کی کوئی چیز یہاں نہیں تھی۔ جبکہ یہاں چار دیواری بھی تعمیر نہیں تھی، ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے، ایم سی ڈاکٹر سیف الرحمن نے سب سے پہلے جغرافیائی مطالعہ کرایا اور ایک سائنسی عمل کے ذریعے یہاں پر موجود پانی و سیوریج کی لائن، بجلی کے کھمبوں، ٹیلی فون کے تاروں اور دیگر یوٹیلیٹی سروسز فراہم کرنے والے اداروں کی تنصیبات کے بارے میں معلومات حاصل کیں ساتھ ہی یہاں موجود درختوں، پارک کے بلند ترین اور گہرے مقامات کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنے کے بعد پارک کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا اور اس پر ہنگامی بنیادوں پر عمل کیا۔ اس مقصد کے لیے میٹروپولیٹن کمشنر نے خود تمام کاموں کی نگرانی کی حالانکہ میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن کے ایم سی کے ایم سی کے علاوہ ڈی جی کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر فرانزک سائنس لیبارٹری کے بھی انچارج ہیں۔ میٹرو پولیٹن کمشنر کی ذاتی دلچسپی سے کڈنی ہل پارک تقریباً اپنی اصل حالت میں بحال تو ہوگیا لیکن یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اگر ذمے افسران کوئی کام کرانا چاہیں تو کم سے کم وقت میں کراسکتے ہیں۔ کڈنی ہل پارک بلاشبہ ایک خوبصورت پارک ہے، یہاں نیم، ناریل، کیکر اور دیگر درخت موجود ہیں پارک کو بحال کرنے کے ساتھ یہاں دو واکنگ ٹریک بنائے گئے ہیں جن میں ایک کا نام علاقے کے حساب سے کوکن ٹریک دوسرے کا دھوراجی ٹریک رکھا گیا ہے۔ یہاں 12 مختلف ٹریلس دریافت ہوئے ان کے درمیان جتنی بھی رکاوٹیں تھی ان کو ختم کردیا گیا۔ ان راستوں کو پاکستان کے پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں، درختوں، پھولوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اگر واقعی کڈنی ہل پارک کو اس قدر خوبصورت بناکیا گیا ہے تو کے ایم سی حکام کو چاہیے کہ اس کا جلد ازجلد چیف جسٹس پاکستان کے ہاتھوں ہی سے افتتاح کرادیں ساتھ ہی یہاں اہم وفود کے دورے کا اہتمام بھی کیا جائے۔