دعا بندے اور ربّ کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو کسی ضابطے کا پابند نہیں ہے، نہ نماز کی طرح اس میں عربی زبان کا التزام ہے، الغرض بندے کی زبان کوئی بھی ہوحتیٰ کہ گونگا بھی ہو، وہ اپنے ربّ سے براہِ راست التجا کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دعا کی ترغیب بھی دی ہے اور انبیائے کرامؑ کی دعائیں بھی بیان فرمائی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ دعا کرنا ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا شعار رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں سے دعا کی قبولیت کا وعدہ بھی فرمایا ہے، ارشاد ہوا: ’’اور (اے رسولِ مکرم!) جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (بتادیجیے) میں یقینا قریب ہوں، دعا کرنے والا جب بھی مجھ سے دعا کرے، میں اُسے قبول کرتا ہوں، پس اُنہیں چاہیے کہ میرے احکام کو مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ وہ ہدایت پائیں، (البقرہ: 186)‘‘۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بھلا وہ کون ہے جو پریشان حال کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جب وہ اُس سے دعا کرے اور اس کی تکلیف کو دور فرماتا ہے، (النمل: 62)‘‘۔ بندگی اپنے ربّ کے حضور انتہائی عَجز، بے بسی اور انکسار کا نام ہے اور دعا اس کا بہت بڑا مَظہر ہے کہ انسان مصیبت میں صرف اُسی کو پکارتا ہے، گویا یہ حقیقت اُس کے لاشعور میں ثبت ہے کہ اس کا کارساز اور چارہ ساز صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور تمہارے ربّ نے فرمایا: تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا کو قبول فرمائوں گا، بے شک جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، وہ عن قریب ذلیل ورسوا ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے، (المومن: 60)‘‘۔ مفسرینِ کرام نے اس آیت میں دعا سے نفسِ دعا، اخلاص وللہیت اور عبادت بھی مراد لی ہے اور اس کی تائید اسی آیت کے اگلے حصے سے ہوتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دعا اور عبادت لازم وملزوم ہیں، اس کی تائید اس حدیث ِ پاک سے ہوتی ہے:
’’سیدنا انس بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: دعا عبادت کا مغز ہے، (ترمذی)‘‘۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’سیدنا نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں: مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں نبیؐ نے فرمایا: دعا عبادت ہی ہے، (سنن ترمذی)‘‘۔ بعض اوقات دعا میں عبادت سے بھی بڑھ کر بندے کو حضوریِ قلب نصیب ہوتی ہے، کیونکہ وہ اپنے ربّ کو براہِ راست پکار رہا ہوتا ہے اور براہِ راست تخاطُب کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے، سو اگر اس کا انگ انگ اور رُواں رُواں مجسّم دعا بن جائے تو اس کی قبولیت یقینی ہے، اسی لیے حدیث پاک میں فرمایا: ’’تم اللہ سے اس حال میں دعا کرو کہ تمہیں اپنی دعا کی قبولیت کا پورا پورا یقین ہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور بے پروا دل کی دعا کو قبول نہیں فرماتا، (سنن ترمذی)‘‘۔ حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: بندے کی دعا اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور نہ دعا میں جلد بازی کرے، عرض کیا گیا: یارسول اللہ! دعا میں جلد بازی کیا ہے، آپؐ نے فرمایا: بندہ کہتا ہے: ’’میں مانگتا رہا، مانگتا رہا، لیکن لگتا نہیں کہ میری دعا قبول ہوگی، سو وہ ہمت ہار جاتا ہے اور دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے، (مسلم)‘‘۔ نیز فرمایا: ’’مظلوم کی دعا سے بچو، کیونکہ اُس کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے، (بخاری)‘‘۔ دوسری حدیث میں فرمایا: ’’تین دعائیں (ہر حال میں) قبول ہوتی ہیں: والد کی دعا اولاد کے حق میں، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا، (ترمذی)‘‘۔
پس معلوم ہوا کہ جب تک آدمی مَن میں ڈوب کر دعا نہ کرے، مارے باندھے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ دعا مانگنا شعارِ نبوت ہے، اسی لیے رسول اللہ ؐ سے مختلف اوقات اور مختلف مواقع کے لیے دعائیں مذکور ہیں، حدیث پاک میں ہے: ’’ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: اللہ نے ہر نبی سے ایک دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا، سو ہر نبی نے جلدی سے دعا مانگ لی اور میں نے قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کی خاطر اپنے لیے قبولیتِ دعا کے اس وعدۂ ربانی کو محفوظ کر رکھا ہے، پس جو کوئی میری امت میں سے شرک سے محفوظ رہ کر مرا، تو اُس کو ان شاء اللہ یہ دعا (حسبِ مرتبہ وحسبِ حال) نصیب ہوگی، (مسلم)‘‘۔
یہ تمہیدی کلمات میں نے اس لیے لکھے ہیں کہ ہمارے دانشور وقتاً فوقتاً ہمیں باور کراتے رہتے ہیں کہ کائنات طبعی قوانین (Laws of Nature) کے تحت چل رہی ہے، اسی کو قدرت کا تکوینی نظام یا قانونِ فطرت بھی کہتے ہیں۔ سرسید احمد خاں، غلام احمد پرویز اور آج کل یاسر پیر زادہ اسی فکر کے داعی اور مُبلِّغ ہیں۔ یہ قدیم یونانی فلسفے کی جدید تعبیر ہے، وہ بھی کہتے تھے کہ عقلِ اول یعنی خالق، کائنات کی تخلیق کر کے معاذ اللہ معطّل (Suspended) ہوگیا ہے، اب کائنات اپنے طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہے اور خالق کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ سرسید احمد خاں نے رسول اللہؐ کے جسمانی معراج کے معجزے کا ردّ کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ اگر حدیث صحیح بھی ہو، لیکن وہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے تو صحیح ہونے کے باوجود اُسے ردّ کردیا جائے گا اور یہ قرار دیا جائے گا کہ راوی کو سمجھنے میں غلطی ہوئی، ذیل میں ہم ان تینوں مفکرین کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ کوان کی وحدتِ فکر کا اندازہ ہوجائے:
سرسید احمد خاں لکھتے ہیں: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف ہے اور عقلاً محال ہے۔ اگر معراج النبیؐ کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے، تو یہی کہا جائے گا کہ اُنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اِس پر قادر ہے، یہ جاہلوں اور مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے، یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں، سچے مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابلِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اُنہوں نے راوی کے سَہو اور خطا، دوراَزکار تاویلات، فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا، (تفسیرالقرآن، جلد2، ص: 122-123)‘‘۔ یہ سرسید احمد خان کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض سرسید معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں، ہمیں وحیِ ربانی کے مقابل کھڑی ہونے والی عقل کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طعن قبول ہے، کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی عشقِ مصطفی ؐ کا تقاضا ہے۔ سرسید احمد خاں تو گویا قانونِ فطرت کو ’’فَاطِر‘‘ یعنی خالق پر بھی حاکم سمجھتے ہیں کہ جس نے اس عالَمِ اسباب کو پیدا کیا اور جو سبب اور مُسبَّب اور علّت ومعلول یعنی Cause & Effectکے تحت چل رہا ہے، خود خالق بھی معاذ اللہ! اس کے خلاف نہیں کرسکتا۔
سورۂ بقرہ آیت: 186 اور سورۂ مومن آیت: 60 کا ترجمہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں، اس کے تحت غلام احمد پرویز لکھتے ہیں:
’’اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے میں مجھے دشواری تھی، کیونکہ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر ایک کی دعا مِن و عَن قبول ہو جائے، لیکن تجربہ یہ بتاتا ہے کہ عملاً ایسا نہیں ہوتا، اگر بعض کی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں تو بہت سوں کی رَد بھی ہو جاتی ہیں، اس کی یہ تاویل کہ دعا کس صورت میں قبول ہو، اللہ تعالیٰ کی حکمت پر منحصر ہے۔ اگر اس کی دعا بعینہٖ قبول نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کا مصیبت میں مبتلا رہنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کے حق میں بہتر ہے اور یہ آیت بھی اس مفہوم کی تائید نہیں کرتی: ’’بھلا وہ کون ہے جو مصیبت زدہ کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے، (النمل: 62)‘‘۔ یعنی اس آیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر مصیبت زدہ کی دعا قبول ہو اور کسی پریشاں حال و درماندہ کی دعا رد نہ ہو، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایک مفہوم میرے ذہن میں یہ آیا کہ زندگی کے کسی مشکل موڑ پر جب بندہ اپنی عقل سے فیصلہ نہ کر سکے تو رہنمائی کے لیے قرآن سے رجوع کرے، لیکن پھر یہ آیت میرے سامنے آئی: ’’اور (اے مسلمانو!) تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے حالانکہ بعض کمزور مرد، عورتیں اور بچے یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا اور اپنی طرف سے کوئی مدد گار بنا، (النساء: 36)‘‘۔
اس آیت سے غلام احمد پرویز کے ذہن میں ایک اور مفہوم آیا کہ اللہ تعالیٰ براہ ِ راست مظلوموں اور پریشاں حال لوگوں کی داد رسی اور نصرت نہیں فرماتا بلکہ وہ اپنے بندوں کے ذریعے ان کی مدد کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح آفاق یعنی اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام میں اس کا قانونِ فطرت کار فرما ہے، اسی طرح انسانوں کی دنیا میں بھی اسی کی کارفرمائی ہے۔ پھر انہوں نے قرآنی آیات کا حوالہ دیا: (۱) ’’وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے، پھر وہ کام اس کی طرف اس دن میں چڑھے گا جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال ہے، (السجدہ: 5)‘‘۔ (۲) ’’وہ عذاب اس دن ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، (المعارج: 4)‘‘۔ لیکن جب اللہ کے بندوں کی کوئی جماعت میدانِ عمل میں آتی ہے تو جو انقلاب پچاس ہزار سال میں برپا ہونا ہے، وہ چند دنوں میں برپا ہو جاتا ہے۔ غزوۂ بدر کے تناظر میں سورۂ انفال آیت 17 کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے یہ معنیٰ اخذ کیا کہ کمان رسول اللہ ؐ کی تھی اور تیر اللہ تعالیٰ کے تھے اور یہ شعر لکھا:
تیر قضا ہر آئینہ در ترکَش ِ حق است
اما کشادِ آں زِ کمانِ محمد است
یعنی قضائے الٰہی کا تیر بہر حال حق کے ترکش سے نکلتا ہے، لیکن اسے محمد رسول اللہؐ کی کمان سے چلا یا جاتا ہے۔ کمان سے تیر چلایا جاتا ہے، جیسے آج کل راکٹ لانچر ہوتا ہے اور تَرکش، جو دراصل تیر کَش ہے، اس آلے کو کہتے ہیں جس میں تیر رکھے جاتے ہیں، ایک ایک تیر نکال کرکمان کے ذریعے چلایا جاتا ہے، اردو لغت میں اس کے لیے متبادل لفظ ’’تیردان‘‘ لکھا گیا ہے۔
(جاری ہے)